Maktaba Wahhabi

64 - 108
’’ کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ تم میرے ساتھ ایسے رہو جیسے حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ تھے۔ سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔‘‘[1] آپ کے اتنے فضائل اور مناقب روایت کے گئے ہیں کہ اتنے کسی اور کے نہیں روایت کیے گئے ۔ آپ کے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوئے : ۱: نواصب : وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپ سے دشمنی مول لی ‘اور آپ کے مناقب چھپانے کی کوشش کرتے رہے ۔ ۲: روافض : جنہوں نے اپنے زعم (گمان) کے مطابق آپ کی محبت میں غلوکیا ، اور اپنی طرف سے ان کے لیے ایسے مناصب و مناقب تراش لیے جن سے آپ بری اور مستغنی ہیں۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو یہ مناقب نہیں بلکہ مثالب ( برائی ) ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہکی بہادری ‘ ذہانت ، اور علم بہت مشہور تھے۔ یہاں تک امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایسی مشکل سے پناہ مانگا کرتے تھے جس کے لیے ابوالحسن نہ ہو۔نحوی مثال بیان کیا کرتے تھے: ’’ قضیۃ و لا ابا حسن لہا‘‘ مسئلہ توہے مگر اس کے( حل کے) لیے کوئی ابو الحسن نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کیا گیا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے : ’’ مجھے سے سوال کرو، مجھے سے سوال کر و، اور مجھے سے سوال کر و اللہ تعالیٰ کی کتاب کے متعلق ۔ سو اللہ کی قسم ! کوئی آیت نہیں مگر میں اس کے متعلق جانتا ہوں کہ یہ دن میں نازل ہوئی یا رات میں۔‘‘ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’ جب ہمیں کوئی ثقہ آدمی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی بات پہنچاتا ‘تو ہم اس ہر گز ادہر ادہر نہ ہٹتے ۔‘‘ اور آپ سے ہی روایت ہے ‘ فرمایا: ’’ میں نے جو بھی قرآن کی تفسیر سیکھی ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سیکھی ہے ۔‘‘
Flag Counter