Maktaba Wahhabi

80 - 82
کرنا چونکہ طبیعت پر گراں گزرتا ہے اور مجاہدہ نفس کا تقاضا کرتا ہے لہٰذا اسے ضیا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ [1] قرآن مجید کا مدرس ہمیشہ اس صفت ِجمیلہ کا ضرورت مند ہوتا ہے۔ وہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتے ہوئے ایک طویل وقت تعلیم و قراء ت کے لیے مسند تدریس پر بیٹھا رہتا ہے۔ طلبا کی غلطیوں اور اخلاقی جسارتوں پر صبر کرتا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وَیَنْبَغِیْ أَنْ یَحْنُوَا عَلَی الطَّالِبِ، وَیَعْتَنِی بِمَصَالِحِہِ کَاِعْتِنَائِہِ، بِمَصَالِحِ نَفْسِہِ وَمَصَالِحِ وَلَدِہِ وَیَصْبِرُ عَلَی جِفَائِہِ، وَسُوْئِ أَدَبِہِ، وَیَعْذِرُہُ، فِی قِلَّۃِ أَدَبِہِ فِی بَعْضِ الْأَحْیَان فَإِنَّ الْإِنْسَانَ مَعْرَضٌ لِلنَّقَائِصِ، لَا سِیَمَا إِن کَانَ صَغِیْرَ السِّنِّ۔)) [2] ’’مدرس کو چاہیے کہ وہ طلباء کے ساتھ شفقت و مہربانی سے پیش آئے، ان کی ضروریات کو خود اپنی او راپنی اولاد کی ضروریات کی طرح پورا کرے، ان کی گستاخیوں اور بے ادبیوں پر صبر کرے بے ادبی پر اسے معذور سمجھے کیونکہ انسان غلطی کا پتلا ہے، خصوصا چھوٹے بچوں سے کوتاہیاں ہو ہی جاتی ہیں۔‘‘ معلم قرآن کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والے داعی اور راہنما سمجھا جاتا ہے، جسے ہر وقت صبر اور یقین کی ضرورت ہے۔ یہی دو خصایص امامت کے رکن ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ﴾ (السجدۃ:۲۴) ’’اور ہم نے اُن میں سے چونکہ اُن لوگوں نے صبر کیا تھا ایسے پیشوا بنائے جو
Flag Counter