Maktaba Wahhabi

42 - 82
زیاد بن لبید الانصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند پیشین گوئیوں کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ یہ اس وقت وقوع پذیر ہوں گی جب دنیا سے علم اُٹھ جائے گا۔ ہم نے کہا: یا رسول اللہ! علم کیسے اُٹھ جائے گا، حالانکہ ہم قرآن مجید پڑھتے ہیں اور اسے اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ اسی طرح قیامت تک ہمارے بچے اپنے بچوں کو پڑھاتے چلے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ((ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ یَا بْنَ أُمِّ لَبِیْدٍ، إِنْ کُنْتُ لَأَرَاکَ مِن أَفْقَہِ رَجُلٍ بِالْمَدِیْنَۃِ، أَوَلَیْسَ ھَذِہِ الیَھُوْدُ وَالنَّصَاری یَقْرَؤُونَ التَّوْرَاۃَ وَالْإِنْجِیْلَ لَایَنْتَفِعُوْنَ مِمَّا فِیْھِمَا بِشَیْئٍ؟۔))[1] ’’اے ابن ام لبید! تیری ماں تجھے گم پائے۔ میں تجھے مدینہ کے سمجھدار لوگوں میں شمار کرتا ہوں۔ کیا یہ یہودی اور عیسائی توراۃ و انجیل کی تلاوت نہیں کرتے؟ اس کے باوجود وہ ان کتب میں موجود نفع سے محروم ہیں۔ ‘‘ خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم دینے والے ہر مدرس کو دین سے سچی محبت ہونی چاہیے اور اس کے قول و فعل میں دینی رنگ سے ہم آہنگی ہو ،تاکہ کل قیامت کے دن قرآن مجید اس کے حق میں سفارش کرے،نہ کہ اس کے خلاف حجت بنے۔اللہ تعالیٰ قرآنی مدرس کو بلند درجات سے نوازے اور اسے اس کی تعلیم سے حقیقی نفع حاصل ہوسکے۔ ۴۔اخلاق حسنہ: قرآن مجید کی تعلیم دینے والے مدرس کو اخلاق حسنہ کا بہترین نمونہ ہونا چاہیے کیونکہ وہ حاملین کتاب اللہ میں سے ہے اور اس شرعی وراثت اخلاق کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔ خالق کاینات نے جس عظیم ہستی پر قرآن مجید نازل فرمایا وہ اخلاق حسنہ کے اعلیٰ ترین ُمقام پر فایز تھے۔ اللہ رب العزت ان کے اچھے اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ (القلم:۴)
Flag Counter