Maktaba Wahhabi

29 - 82
ان کے بعد کچھ ایسے قراء کرام مشہور ہوئے جنہوں نے قراء ا ت قرآنیہ کی خدمت کو بطور مشن اپنا مقصد حیات بنا لیا اوران کے فروغ کا خصوصی اہتمام فرمایا۔ ان کے اس خصوصی اہتمام اور مداومت کی وجہ سے قراء ات کو ان کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔ جس کے متعلق امام دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وَھَذِہِ الإِضَافَۃُ إِضَافَۃُ اخْتِیَارٍ وَدَوَامٍ وَلُزُوْمٍ، لَا إِضَافَۃُ اخْتِرَاعٍ وَرَأیٍ وَاجْتِھَادٍ۔))[1] ’’یہ نسبت اختراع، رائے یا اجتہاد کی نہیں، بلکہ اختیار، لزوم اور دوام کی ہے۔‘‘ پھر ان کے بعد اپنے وقت کے امام قاری المقریٔ ابوبکرأحمد بن موسیٰ المعروف بابن المجاہد البغدادی رحمہ اللہ (ت ۳۲۴ھ) میدان میں آئے اور فروغ قراء ات کے لیے بڑی شاندار خدمات انجام دیں۔ انہوں نے تاریخ قراء ات میں پہلی دفعہ مکہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ اور شام کے سات معروف قراء کرام کی قراء ات کو اپنی کتاب ’السبعۃ‘ میں ایک جگہ جمع فرمایا۔[2] وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بعض شہروں میں بعض مخصوص کتب مشہور ہوتی چلی گئیں۔ پانچویں صدی ہجری کے بعد شام میں ’الشاطبیۃ‘ مصر میں ابوطاہر اسماعیل بن خلف الانصاری رحمہ اللہ (ت ۴۵۵ھ) کی کتاب ’العنوان فی القراء ات السبع‘ اور عراق میں القلانسی (ت۵۲۱ھ) کی کتاب ’الارشاد‘مشہور ہوگئی۔[3] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل مغرب و اہل اندلس نے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں فقط قراء ات سبعہ کا ہی اہتمام کیاہے۔ پھر رفتہ رفتہ تعلیم قرآن کے حلقات کا معیار متنوع ہوتا چلا گیا، بعض حلقات خلفاء، امراء اور خواص کی اولاد کی تعلیم کے لیے مختص تھے۔ بعض عام لوگوں کے لیے تھے۔ جبکہ بعض حلقات میں فقہاء اور کبار علماء سمیت متنوع اقسام کے طلبا شریک ہوتے تھے۔[4]
Flag Counter