Maktaba Wahhabi

67 - 158
’’حَیَّ عَلَیٰ الْفَلَاحِ‘‘(فلاح و کا مرانی کی طرف آجاؤ)کے کلمات سنے۔ میں یہ بات قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں عمر بھر اذان سنا کرتا تھا۔لیکن کسی ایک دن بھی میں فلاح و کامرانی کا معنی و مفہوم نہیں سمجھ سکا۔شیطان نے میرے دل پر مہر لگا رکھی تھی۔اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ اذان کے کلمات میرے لیے ایسے ہی تھے جیسے وہ کسی ایسی زبان کے الفاظ ہوں، جسے میں نہیں سمجھتا۔ہمارے اردگرد لوگ اپنے قالین اور جانماز بچھانے لگتے اور نماز کے لیے جمع ہو جاتے۔جبکہ عین اس وقت ہم ان سے قطعی بیگانہ تیراکی کا سامان اور ہوا کی نالیاں درست کر رہے ہوتے تھے۔تاکہ پانی کی گہرائی میں اتر سکیں۔ ایک دن ہم نے تیراکی کا لباس پہن لیا اور سمندر میں داخل ہو گئے۔آہستہ آہستہ ساحلِ سمندر سے ہم کافی دور نکل گئے، یہاں تک کہ ہم گہرے سمندر کے درمیان میں جا پہنچے۔ہر چیز اپنی اپنی جگہ درست تھی اور ہماری یہ سمندری سیر و تفریح بڑی خوبصورتی سے جاری تھی۔ ہم اسی لطف اندوزی کی انتہا پر تھے کہ اچانک ربڑ کا وہ ٹکڑا پھٹ گیا جسے ہر تیراک نے اپنے دانتوں اور ہونٹوں میں دبایا ہوا ہوتا ہے، تاکہ وہ پانی کو منہ میں داخل ہونے سے روکے رکھے اور نالیوں کے ذریعے تیراک کو تازہ ہوا مہیا کرتا رہے۔وہ ٹکڑا اس وقت پھٹا جب ہوا میرے پھیپھڑوں میں جا رہی تھی۔اچانک سمندر کے نمکین پانی نے میری سانس لینے والی نالی کو بند کر دیا اور میں مرنا شروع ہو گیا۔ میرے پھیپھڑوں نے مدد کے لیے دھائی دینا شروع کر دی۔انھیں ہوا
Flag Counter