حالت یہ ہو گئی کہ اب میں اپنے والدین کو ملنے کے لیے جانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہی تھی۔جبکہ اس سے قبل ہم ہر پندرہ روز کے بعد اپنے مائیکے اور سسرال دونوں کو ملنے کے لیے جایا کرتے تھے۔ جب کبھی اچانک میرا شوہر گھر میں داخل ہو جاتا تو میں گھبرا اٹھتی اور میں انٹرنیٹ پر موجود ہر چیز کو کچھ اس افراتفری میں بند کرتی کہ اسے تعجب ہوا کرتا تھا۔لیکن اسے مجھ پر کسی قسم کا کوئی شک نہیں تھا۔بلکہ وہ تو یہ چاہتا تھا کہ وہ دیکھے کہ میں انٹرنیٹ پر کیا کرتی اور اس سے کس طرح دل بہلاتی ہوں؟ ہو سکتا ہے کہ یہ محض ایک فضول سا جذبہ ہو یا شاید یہی غیرت ہے کہ ایک دن جب اس نے لائیو چیٹ(گفتگو)کرتے ہوئے کسی کی آواز سن لی تھی۔جسے میں اپنی تمام تر کوششوں اور ہوشیاریوں کے باوجود اس سے چھپا نہ سکی۔تو اس دن کے بعد وہ کبھی کبھار مجھ پر خفگی کا اظہار کرتا رہتا تھا۔اور یہ کہا کرتا تھا کہ انٹرنیٹ حصولِ معلومات کا بڑا وسیع میدان ہے۔لیکن یہ وقت ضائع کرنے کا باعث بھی ہے۔ وقت گزرتا گیا اور میں روز بروز نت نئے لوگوں سے چیٹنگ کی گرویدہ و دلدادہ ہوتی گئی۔بچوں کی تربیت و پرورش کا مسئلہ میں نے نوکرانی پر ڈال دیا۔یہ تو میں جانتی ہی تھی کہ میرا شوہر کب گھر آتا ہے۔لہٰذا اس کی آمد سے پہلے پہلے میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سب آف کرکے رکھ دیا کرتی۔اور جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے۔میں نے اپنے بناؤ سنگھار سے لاپرواہی برتنا شروع کر دی تھی۔ اس انٹرنیٹ میں داخل ہونے سے پہلے میں اپنے شوہر کے گھر آنے پر |