Maktaba Wahhabi

123 - 158
خدمت پر مامور کر دیا گیا۔ اب سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف عقیدت و احترام سے دیکھنا شروع کیا۔ان کی آنکھوں سے فرطِ محبت کی بنا پر ٹپ ٹپ آنسو بہہ رہے تھے۔جو ان کے رخساروں کو بھگوتے ہوئے زمین پر گر رہے تھے۔ وہ انتہائی فرحت و مسرت سے مالامال اور بشارت و خوشی سے دو چار تھے۔پھر وہ اسلام لائے۔کلمۂ شہادت پڑھا اور پھر اپنے یہودی مالک کے پاس چلے گئے۔اس یہودی نے کام کاج اور خدمت کا بوجھ مزید بڑھا دیا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا شرف لوٹتے۔لیکن وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہونے کی وجہ سے اس شرف و سعادت سے محروم رہتے۔حتیٰ کہ انھیں غزوۂ بدر و معرکۂ اُحد میں شرکت کا اعزاز بھی نہ مل سکا۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا: اے سلمان! اپنے مالک سے حصولِ آزادی کا معاوضہ اور ادا کرنے کی شرائط طے کر لو۔یعنی طے شدہ قیمت کے عوض اپنی آزادی کا سودا کر لو اور اپنے آپ کو اس یہودی سے آزاد کرا لو۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنے مالک سے اس سلسلے میں بات کی تو اس نے ان کی آزادی کی قیمت بہت زیادہ بڑھا دی۔اس نے چالیس اوقیہ چاندی(سولہ سو درہم)کے علاوہ یہ شرط عائد کر دی کہ کھجور کے تین سو پودے جمع کریں۔انھیں زمین میں لگائیں اور ان کی آبیاری کریں۔اور ساتھ ہی اس نے یہ بھی شرط لگا دی کہ وہ تین سو کے تین سو پودے ہرے بھرے ہو کر بڑھنے بھی لگیں گے تو پھر میں تمھیں آزاد کروں گا۔!
Flag Counter