Maktaba Wahhabi

33 - 166
ہے، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً اڑھائی یا دو سو سال بعد یعنی ۸۹۷ یا ۸۶۷ عیسوی کا ہے19۔ لہٰذا یہ دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے دینی تصورات یہود سے لیے ہیں۔ قرآن مجید اور تورات وانجیل کے مضامین کی مماثلت کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے بیان کے مطابق تینوں کتابیں مختلف ادوار میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کی گئی ہیں لہٰذا ان کے مابین مماثلت کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ تینوں کا مصدر (origin) ایک ہے اور وہ ذات باری تعالیٰ ہے۔ پس مضامین کی مشابہت ایک فطری امر ہے۔ چوتھے باب میں ٹزڈال نے عیسائیت اور عیسائی لٹریچر کو قرآن مجید کا ایک مصدر قرار دیا ہے۔ اس نے اس باب کا عنوان "Influence of Christianity and Christian Apocryphal Books" رکھا ہے۔ا س باب میں اس نے کہا ہے کہ اگرچہ عیسائی اس طرح سے عرب میںآباد نہیں تھے جیسے کہ یہود لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے سفر تجارت کے دوران مختلف مواقع پر عیسائی راہبوں مثلاً ورقہ بن نوفل وغیرہ سے ملاقات کے ذریعے اور نجران کے بشپ قُس بن ساعدہ کے عکاظ کے میلہ میں خطبات سن کر مسیحی دین کے عقائد و تعلیمات کے بارے بہت کچھ واقفیت حاصل کر لی تھی جسے انہوں نے بعد ازاں اپنی کتاب قرآن مجید میں شامل کیا۔ ٹزڈال کے الفاظ ہیں: In his youth, we are told, Muhammad heard the preaching of Quss, the Bishop of Najran, and he met many monks and saw much of professing Christians when he visited Syria as a trader before his assumption of the prophetic office. 20 مکہ یا اس کے گردو ونواح میں عثمان بن حویرث اور ورقہ بن نوفل کے علاوہ کوئی عیسائی نہیں تھا۔ عثمان بن حویرث تو نبوت سے تین سال پہلے ہی شام چلا گیا اور وہاں جا کر ہی اس نے عیسائیت قبول کی تھی اور قیصر کے ہاں مقام ومرتبہ حاصل کیا۔21اور ورقہ بن نوفل سے آپ کی پہلی ملاقات پہلی وحی کے نزول کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ذریعے ہوئی اور وہ ان کے چچازاد بھائی تھے۔ ورقہ بن نوفل نے آپ سے ملاقات کے دوران ایسی کوئی بات نہیں کہی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے شاگرد ہیں۔ اس ملاقات میں جو مکالمہ
Flag Counter