Maktaba Wahhabi

34 - 166
ہوا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ورقہ کی پہلی ملاقات تھی۔ اور اس ملاقات میں ورقہ آپ کو کیا متاثر کرتے بلکہ وہ تو الٹا آپ سے متاثر ہو گئے اور آپ کو نہ صرف اللہ کا سچانبی قرار دینے لگے بلکہ آپ کی مدد کی شدید خواہش کا اظہار بھی کرنے لگے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ’’فقال له ورقة: یا ابن أخی ماذا تری؟ فأخبره رسول الله صلی الله علیه وسلم خبر ما رأی. فقال له ورقة: هذا الناموس الذی نزل الله علی موسی ‘‘22 ’’ حضرت ورقہ نے آپ سے کہا: اے میرے بھتیجے! آپ نے کیا دیکھا ہے۔ تو اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خبر دی کہ آپ نے کیا دیکھا۔ تو ورقہ بن نوفل نے کہا: یہ تو وہی ناموس (فرشتہ)ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا۔‘‘ نبوت سے پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے باہر دو سفر کیے ہیں۔ دونوں شام کی طرف تجارت کی غرض سے تھے۔ ایک تو لڑکپن کی عمر میں تھا اور آپ کی عمر اس وقت ۱۲ سال تھی جبکہ شام کی طرف پہلے سفر کے دوران آپ کی ملاقات ایک عیسائی راہب بحیرہ سے ہوئی۔ یہ ملاقات بھی مختصر وقت کے لیے تھی اور اس راہب نے بھی آپ کی نبوت کی گواہی بھی دی۔ پس وہ آپ کو کیا متاثر کرتا وہ تو آپ سے اثر قبول کر رہا تھا۔ اس نے آپ کے دونوں کندھوں کے مابین مہر نبوت کی تصدیق بھی کی23۔ دوسرا تجارتی سفر آپ نے ۲۵ سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی خواہش پر کیا 24جبکہ نبوت کا دعویٰ آپ نے اس سے پندرہ سال بعدچالیس برس کی عمر میں کیا۔ مستشرقین اپنا نظریہ احتمال (Theory of Probability) استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سفر شام میں آپ کی بہت سے عیسائی راہبوں سے ملاقات ہوئی ہو گی اور آپ نے ان سے عیسائیت کے بارے بہت کچھ سیکھا ہو گا وغیرہ۔ تاریخی روایات میں ہمیں صرف اتنی تفصیل ملتی ہے کہ اس سفر کے دوران حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ایک غلام میسرہ آپ کے ساتھ تھا اور رستے میں ایک درخت کے نیچے پڑاؤ کے دوران ایک راہب نے غلام میسرہ سے آپ کے بارے سوال کیا تو غلام نے بتلایا کہ آپ ایک قریشی نوجوان ہے
Flag Counter