Maktaba Wahhabi

171 - 186
یہ واقعہ اس دور کا ہے جب ملک میں جمہوریت تھی اور لوگ اپنے ضمیر کے مطابق بات کر سکتے تھے، لیکن جب جمہوریت نہ رہی تو بلند کرداری کی ایسی مثالیں بھی کمیاب ہو گئیں اور جو اب صورت حال ہوگئی ہے اس کی سنگینی کا اندازہ کل پاکستان انجمن مدیرانب جرائد کے صدر اور روزنامہ نوئے وقت کے مدیر اعلیٰ جناب مجید نظامی کی اس گفتگو سے کیا جا سکتا ہے جو روزنامہ ’’وفاق‘‘ کے اصلاحِ معاشرہ نمبر میں ایک اخباری ملاقات کی صورت میں شائع ہوئی ہے۔ وہ اس گفتگو میں اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہ اخبارات میں باقاعدہ جرائم پیشہ لوگ آگئے ہیں ، کہتے ہیں : ’’بالکل آگئے ہیں اور اکثر یعنی شام کو دکانیں کھلی ہوتی ہیں کہ تصویر باخبر چھپنے کا کیا معاوضہ ہے، مجھے آپ سے بالکل اتفاق ہے۔ میرا خیال ہے جس طرح صدر صاحب (صدر محمد ضیاء الحق) کبھی کبھی کہتے ہیں کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، تو میں یہ تو نہیں کہتا کہ اس کا اطلاق پریس پر بھی ہوتا ہے۔ لیکن حالات کچھ اس سے مختلف ہیں نہیں ، بہتر تو یہی ہے کہ جس طرح ہم صدر صاحب سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اوپر سے اصلاح شروع کریں ۔ ان کے وزرائے کرام یا ان کے مشیر اور (حکومت کے) سیکرٹریوں کی اصلاح ہونی چاہیے۔ اسی طرح اخبارات میں بھی مدیران اور مالکان ہیں ، ان کے ساتھی ہیں ، ان کی بھی اصلاح ہونی چاہیے اور اگر اس سطح پرکالی بھیڑیں موجود ہیں تو ان کی تطہیر ہونی چاہیے۔‘‘ انہی نظامی صاحب نے ۱۹ جولائی ۱۹۸۵ء کو پولیس کلب لاہور میں ’’جرائم پر قابو پانے میں ذرائع ابلاغ کا کردار‘‘ کے موضوع پر ہونے والے سیمینار میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے اس امر کا اعتراف ہے کہ بعض کرائمز رپورٹر پولیس کے ٹاؤٹ بن گئے ہیں ۔ ایماندارانہ رپورٹنگ کا تقاضا ہے کہ رپورٹر وہی کچھ لکھنے پر اکتفا نہ کرے جو تھانوں کی ضمنی رپورٹوں میں لکھا جاتا ہے، بلکہ رپورٹر کا فرض ہے کہ وہ معاملے کی
Flag Counter