Maktaba Wahhabi

170 - 186
اخبارات کو مجبور کرتے ہیں کہ ان کی غلط پالیسیوں کی تائید کی جائے۔ اس مقصد کے لیے اشتہارات پر پابندی، مقدمات میں الجھانے، اخبار اور پریس سے ضمانت طلب کرنے اور اخبارات کا اجازت نامہ (Declaration) منسوخ کر دینے کی دھمکیوں سے کام لیا جاتا ہے اور اگر اخبار یا صحافی جی دار ثابت ہو تو ان دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ بہرحال ایسی صورت میں بھی بااصول اخبارات مقابلہ کرتے ہیں اور عدالتوں سے اپنا حق حاصل کرتے ہیں ۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بااثر لوگ جاگیردار اور سرمایہ دار اپنی زیادتیوں کی خبریں رکوانا چاہتے ہیں اور کبھی ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے حق میں خبریں شائع کی جائیں ۔ اس مقصد کے لیے وہ خوشامد سے بھی کام لیتے ہیں اور دھن، دھونس اور دھاندلی کے حربے بھی استعمال کرتے ہیں ۔ پولیس بھی صحافیوں کو خصوصاً مفصلات کے نامہ نگاروں کو تنگ کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس کی دھاندلیوں کو بے نقاب نہ کیا جائے۔ ان تمام صورتوں میں باضمیر صحافیوں کو مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ جس طرح کسی غیر قوم کی سیاسی غلامی میں قوموں کے اخلاق پست ہو جاتے ہیں ، اسی طرح جبر کے ماحول میں بھی اخلاقی پستی کا مرض عام ہوجاتا ہے اور معاشرے کے ہر شعبے میں اپنا اثر دکھانے لگتا ہے۔ ۱۹۵۸ء میں مارشل لاء لگنے کے بعد سے قوم کے سر پر جبر کی تلوار لٹکتی چلی آرہی ہے، اس نے پیشہ صحافت سے وابستہ لوگوں کے اخلاق کو بھی متاثر کیا ہے۔ غالباً ۱۹۵۴ء کی بات ہے کہ کوہستان روالپنڈی کے اسٹاف رپورٹر شاہ عبدالرزاق ہمدانی مرحوم کے پاس کچھ لوگ آئے اور ان سے درخواست کی کہ شہر کے فلاں تاجر نے اپنی بیٹی کو بدچلنی کے شبہ میں قتل کر دیا ہے، آپ اس واقعے کی خبر اس طرح چھاپ دیجیے کہ ان پر الزام نہ آئے تو مہربانی ہوگی۔ ساتھ ہی انہوں نے سو سو روپے کے تین نوٹ بھی بڑھا دیے جو اس زمانے کے لحاظ سے خاصی معقول رقم تھی، مگر ہمدانی مرحوم نے نہ صرف اس رقم کو لینے سے انکار کر دیا، بلکہ چپڑاسی کو بلا کر ان لوگوں کو دفتر سے نکلوا دیا۔
Flag Counter