Maktaba Wahhabi

169 - 186
ترجمان اور اس کی سیکولر پالیسیوں کا پرچار تھا۔ اس کے عملے میں شامل ایک صحافی جناب مسعود ساحر نے راولپنڈی میں سوال وجواب کی ایک نشست میں مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ مولانا! کسی صحافی کا کسی ایسے اخبار میں ملازمت کرنا کیسا ہے جہاں اسے اپنے ضمیر کے خلاف کام کرنا پڑے؟ مولاناؒ نے فرمایا: ’’ضمیر کے خلاف کام کرنا شرفِ انسانیت کے منافی ہے، ایسی صحافت سے بہتر ہے کہ آدمی جوتے گانٹھ کر روزی کما لے۔‘‘ اس پر وہاں موجود ایک اور صحافی نے کہا کہ ’’مولانا! ان صاحب کا تعلق کنونشن مسلم لیگ کے اخبار کوہستان سے ہے، اس اخبار میں کچھ اور صحافی حضرات بھی ہیں جو ذاتی طور پر ایوب خاں کی استبدادی پالیسیوں کے مخالف ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم اس اخبار میں کام کرنا چھوڑ دیں ، تو ہماری جگہ ایسے لوگ آجائیں گے جو دل سے بھی ایوب خاں کی استبدادی پالیسیوں کے حامی ہوں گے۔ اس صورت میں اسلامی اور جمہوری قوتوں کے بارے میں اخبار کا لب ولہجہ اور زیادہ سخت اور درشت ہو جائے گا اور وہ اور زیادہ شدت سے زہر اگلنے لگے گا۔‘‘ مولانا رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’یہ سوچ درست نہیں ہے، حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آپ جن شریف لوگوں کا ذکر کر رہے ہیں ان کا اس اخبار میں موجود ہونا کنونشن لیگ کے استبدادی نظام کی عمر میں اضافے کا موجب بن رہا ہے۔ اگر یہ اخبار سے علیحدگی اختیار کر لیں اور بقول ان کے ان کی جگہ برے لوگ آجائیں تو اخبار کے کردار کی برائی اور زیادہ جلدی سامنے آجائے گی اور کنونشن لیگ کی اخلاقی حیثیت اتنی ہی جلدی عام لوگوں کی نظر میں گر جائے گی۔‘‘ اخبارات اور صحافیوں کو بعض دوسری صورتوں میں بھی اپنے ضمیر کے خلاف کام کرنے یا نہ کرنے کے مشکل سوال سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وقت کے حکمران
Flag Counter