تفتیش اور تحقیق کے بعد اپنی رپورٹ مرتب کرے۔ اسی طرح کچھ پولیس والے ایسے ہیں جو اپنی تصاویر اور اپنے حق میں خبریں چھپوانے کے لیے رپورٹروں کو ماہانہ ادائیگی کرتے ہیں ۔‘‘ (نوائے وقت، راولپنڈی، ۲۰ جولائی ۱۹۸۵ء)
یہ صورت حال جہاں صحافی برادری کے اخلاقی انحطاط کی آئینہ دار ہے وہاں اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ضمیر کی آزادی کو صرف خارجی موانع ہی محدود نہیں کرتے، بلکہ کچھ داخلی عوامل بھی اس کی راہ میں مزاحم ہوتے ہیں جن میں دولت دنیا کی حد سے بڑھی ہوئی حرص اور استحقاق سے بڑھ کر مفاد حاصل کر لینے کا جذبہ بہت زیادہ قوی ہیں ۔ ضمیر کو زندہ وبیدار رکھنے کے لیے داخلی اور خارجی ہر قسم کے موانعات سے ہمہ وقت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ ضمیر کی آزادی بھی سیاسی اور آزادی کی طرح جدوجہد اور قربانیوں سے حاصل ہوتی ہے اور حفاظت کرنے سے محفوظ اور برقرار رہتی ہے۔ دیکھا جائے تو صحافت کی آزادی درحقیقت ضمیر کی آزادی ہی کا دوسرا نام ہے۔ صحافیوں کو اگر یہ آزادی حاصل نہیں تو انہیں اس کے حصول کی جدوجہد کرتے ہوئے کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا چاہیے۔
|