Maktaba Wahhabi

83 - 372
موقوفا علی قول محمد لا یجوز إلا بإجازۃ الولي فإن إمتنع من الإجازۃلم یجز إجازۃ الحاکم بل یسقط الحاکم ولایۃ الولي و یعقد علیھا عقدا مستانفا و بطل العقد المتقدم … وقال أبو یوسف إذا إمتنع الولي من الإجازۃ إجازۃ الحاکم یعنی أن الحاکم یأمر الولي أولا باالإجازۃ فإن أبا قضی علیہ بالعضل و یجیزہ الحاکم‘‘ ۶۳؎ ’’امام ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نکاح ولی کے بغیر واقع نہیں ہوتا۔امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ کے نزدیک نکاح ولی کے بغیر واقع تو ہوجاتا ہے لیکن ولی کی اجازت تک عملاً جاری نہیں ہوتا۔اگر ولی اجازت دینے سے انکار کردے تو پھر حاکم وقت بھی عورت کو اجازت نہیں دے سکتا البتہ حاکم وقت ولی کے خیر خواہ نہ ہونے کی صورت میں،ولی کی ولایت کو ختم کرکے نیا نکاح کرسکتا ہے اور اس طرح ولی کی اجازت کے بغیر واقع ہونے والا پہلا نکاح ختم ہوجائے گاجبکہ امام یوسف رحمہ اللہ کہتے ہیں جب ولی اجازت دینے سے انکار کردے تو حاکم پہلے تو ولی کو اجازت دینے کا حکم دے گا اگر ولی اجازت نہ دے تو ولی کو بے کار قرار دے کر خود اجازت جاری کردے گا۔‘‘ حنفی فقہ کی مشہور کتاب ’’تحفہ الفقہاء‘‘ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے تلامذہ کا مسلک یوں منقول ہے: ’’وقال أبو یوسف و محمد والشافعی بأن لھم ولایۃ التزویج فی حق الکبیرۃ العاقلۃ لکن إختلفوا فیما بینہم فیما إذا زوجت نفسہا من غیر إذن الولي:قال الشافعی:لایجوز أصلا،ولا یتوقف علی إجازۃ الولی وقال محمد:یتوقف علی إجازۃ الولی،ولا نفاذلہ للحال۔حتی لو وطئہا یکون وطئا حراما،ولیس فیہ طلاق ولا ظہار ولو ماتا لم یتوارثا،وعن أبی یوسف روایتان فی روایۃ إذا مات أحدھما قبل أن یجیزہ الولي،والزوج کف ء یتوارثان وفی روایۃ الحسن عنہ:إنہما لا یتوارثان،کفئا کان أو غیر کف ء‘‘۶۴؎ ’’امام ابو یوسف رحمہ اللہ،امام محمد رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ عاقلہ اور بالغہ لڑکی کے نکاح میں ولی کا ہونا ضروری ہے لیکن اس بارے میں تینوں اماموں کی تعبیر میں اختلاف ہے کہ اگر لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے توکیا کیا جائے۔امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ لڑکی کے لئے ایسا قطعاً جائز نہیں۔اگر اب ولی اجازت بھی دے دے تو نکاح نہیں ہوگا۔امام محمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ولی کی اجازت کا انتظار کیا جائے گا اور عملاً نکاح کے احکام لاگو نہ ہوں گے۔حتٰی کہ اگر خاوند بیوی سے جماع کرلے تو یہ فعل حرام ہوگا اس صورت میں طلاق،ظہار وغیرہ کا بھی کوئی سوال نہیں۔اگر فریقین میں سے کوئی ایک مر جائے تو دونوں آپس میں وارث بھی نہ ہوں گے۔امام یوسف رحمہ اللہ سے اس کے دو جواب مروی ہیں… ایک جواب تو یہ ہے کہ ولی کی اجازت سے پہلے کوئی ایک مر جائے اور خاوند کفو(ہمسر)ہو تو وراثت کے احکام جاری ہوں گے اور دوسری روایت میں ہے کہ خاوند کفو ہو یا غیر کفو۔وراثت کے کوئی احکام جاری نہیں ہوں گے۔‘‘ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف جامع المسانید‘ میں امام صاحب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ذکر کیا ہے: ’’لا نکاح إلا بولي وشاہدین من نکح بغیر ولي و شاہدین فنکاحہ باطل‘‘۶۵؎ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ ولی اور دو گواہوں کے بغیر کوئی نکاح نہیں جس کسی نے ولی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘ ٭ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ ہے: ’’أترکوا قولی بخبر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صح الحدیث فہو مذہبی‘‘۶۶؎
Flag Counter