کہ عقد نکاح میں فریق لڑکی کا ولی اور لڑکا ہوتے ہیں۔لڑکی جو فی الواقع تو نکاح میں فریق ہے لیکن عقد نکاح میں نہیں اس کی طرف سے یہ ذمہ داری ولی سرانجام دیتا ہے،اس کی رضا مندی حاصل کرکے۔ مالکیہ کا مسلک ٭ امام مالک رحمہ اللہ اپنی کتاب المدونۃ الکبرٰی میں،’’لا یحل بغیر ولي‘‘ کے عنوان کے تحت اوپر ذکر ہونے والی احادیث کے تذکرہ کے بعد فرماتے ہیں: ’’قال مالک فی المرأۃ یفرق بینہا و بین زوجہا دخل بہا أولم یدخل بہا إذا زوجہا غیر ولي‘‘ ۵۹؎ ’’امام مالک رحمہ اللہ اس عورت کے بارے میں فرماتے ہیں جس کا نکاح ولی کے علاوہ کوئی اور کردے کہ اس عورت کے اور اس کے خاوند کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی۔چاہے خاوند نے اس سے جماع کیا ہو یا نہ کیا ہو۔‘‘ ٭ مالکی مذہب کے مشہور امام علامہ صالح عبدالسمیع الازھری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’ورکنہ ولي و صداق…(ورکنہ) أي النکاح عام للأرکان الأربعہ أی التی یتوقف وجود علیھا…(ولي) للمرأۃبشروطہ الآتیہ فلا ینعقد نکاح بدونہ‘‘ ۶۰؎ ’’نکاح کا رکن ولی اور مہر ہے…نکاح کا رکن یعنی نکاح کے واقع ہونے کے لئے چار ارکان ضروری ہیں۔جن پر نکاح کا وجود موقوف ہے… ولی عورت کے لئے آئندہ آنے والی شرائط کے ساتھ،پس نکاح ولی کے بغیر منعقد نہیں ہوسکتا۔‘‘ حنابلہ کا مسلک ٭ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’ولنا أن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:لا نکاح إلا بولي رواہ عائشہ،و ابو موسی،وابن عباس،قال المروزی سألت أحمد بن حنبل ویحیی عن حدیث(لا نکاح إلا بولي )فقالا صحیح‘‘۶۱؎ ’’اور ہمارا(حنابلہ)کا مسلک یہ ہے کہ بے شک نبی1نے فرمایا کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔اس کو عائشہ رضی اللہ عنہا،ابو موسٰی رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔امام مروزی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور یحییٰ رحمہ اللہ سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا تو ان دونوں نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔‘‘ ٭ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے یہ روایت نقل کی ہے: ’’عن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:لانکاح إلا بولي والسلطان ولي من لا ولي لہ‘‘ ۶۲؎ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:ولی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا اور حاکم اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو۔‘‘ احناف کا مسلک ’’الجوھرۃ النیرۃ شرح قدوری‘‘ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمدبن حسن شیبانی رحمہ اللہ کا مذہب یوں ذکر کیا گیا ہے: ’’وعن أبی یوسف أنہ لا ینعقد إلا بولي و عند محمد ینعقد موقوفا علی أجازۃ الولي ثم إذا إنعقد |