اور زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی روایات صحیح اور قابل اعتماد ہیں۔اسی طرح اس حدیث کی مختلف ائمہ محدثین سے روایات بالکل صحیح ہیں اور ان روایات میں کسی نقص کا احتمال نہیں ہے۔‘‘ اس کے علاوہ نامور محدثین ابو عوانہ،ابن خزیمہ،ابن حبان اور امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔۳۴؎ ’’نکاح کے لئے ولی کی ضرورت‘‘خلفائے راشدین کے فیصلوں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کی روشنی میں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اقوال اور فیصلے ٭ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’لا تنکح المرأۃ إلا باذن ولیہا أو ذی الرای من أھلہا أو السلطان‘‘۳۵؎ ’’ کوئی بھی عورت اپنے ولی یا گھر کے سرپرست یا سلطان کے بغیر اپنا نکاح نہ کرے۔‘‘ ٭ عمرو بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’لا تنکح المرأۃ إلا باذن ولیہا وإن نکحت عشرۃ أو بإذن سلطان‘‘۳۶؎ ’’عورت کا اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں۔اگرچہ وہ دس بار بھی اپنا نکاح کرے۔یا حاکم کی اجازت کے بغیر۔‘‘ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں بغیر ولی کے نکاح کا واقعہ پیش آیا تو آپ نے فریقین کو کوڑے لگوائے۔چنانچہ حضرت عکرمہ بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’جمعت الطریق رکبا فجعلت امرأۃمنھم ثیب أمرھا بیدرجل غیر ولي فانکحہا فبلغ ذالک عمر فجلد الناکح والمنکح ورد نکاحہا‘‘ ۳۷؎ ’’کسی راستے میں ایک قافلہ ٹھہرا۔ایک ثیبہ(شوہر دیدہ )عورت نے ولی کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا معاملہ سپرد کر دیا اور اس نے اس کا کسی شخص سے نکاح کرا دیا حضرت عمرکو اطلاع ملی تو آپ نے نکاح کرنے والے اور نکاح کرانے والوں کو کوڑے مارے اور یہ نکاح مسترد کردیا۔‘‘ الغرض اس سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعدد فیصلے کتب احادیث میں موجود ہیں،جن کی تفصیل طوالت کا باعث ہو گی۔ خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے اقوال اور فیصلے ٭ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’الولی:ویشترط فی نکاح المرأۃرضی الولی لقولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم لا نکاح إلا بولي وشاہدی عدل ویجوز للولي أن یوکل غیرہ فی تزویج ابنتہ فقد روی أن رجلا من العرب ترک ابنتہ عند عمر رضی اللّٰہ عنہ وقال إذا وجدت لہا کفوا فزوجہ ایاہا ولو بشراک نعلہ فزوجہا عمر رضی اللّٰہ عنہ من عثمان بن عفان فولدت لہ عمروا فہي أم عمرو بنت جندب‘‘۳۸؎ ’’ولی کے بارے میں:عورت کے نکاح میں نبی اکرم صلی ا للہ علیہ وسلم کے فرمان ’’لانکاح إلا بولي‘‘ کی وجہ سے ولی کی رضا مندی لازمی ہے۔اور ولی کے لئے جائز ہے کہ اپنی بیٹی کا نکاح کرنا کسی دوسرے کے سپرد کر دے۔روایات میں ہے کہ عرب میں سے ایک آدمی نے اپنی بیٹی کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس یہ کہہ کر چھوڑا کہ اے عمر رضی اللہ عنہ جب آپ میری بیٹی کے مناسب حال کوئی رشتہ دیکھیں تو اس کا نکاح کر دیں اگرچہ حق مہر بہت ہی |