Maktaba Wahhabi

76 - 372
کرتی رہتی،توحمل کے ظاہر ہونے کے بعد اس کا شوہر اگر چاہتا تو اس سے صحبت کرتا،ایسا اس لئے کرتے تھے،تاکہ ان کا لڑکا شریف اور عمدہ پیدا ہو۔یہ نکا ح نکاح استیضاع کہلاتا تھا،تیسری قسم نکاح کی یہ تھی کہ چند آدمی جو تعداد میں دس سے کم ہوتے کسی ایک عورت کے پاس آنا جانا رکھتے اور اس سے صحبت کرتے،پھر جب وہ عورت حاملہ ہوجاتی اور بچہ جنتی تو وضع حمل پر چند دن گزارنے کے بعد وہ عورت اپنے ان تمام مردوں کو بلاتی،اس موقع پر ان میں سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا تھا،چنانچہ وہ سب اس عورت کے پاس جمع ہوجاتے اور وہ ان سے کہتی کہ جو تمہارا معاملہ تھا وہ تمہیں معلوم ہے اور اب میں نے یہ بچہ جنا ہے،پھر وہ کہتی کہ اے فلاں یہ بچہ تیر ا ہے وہ جس کا چاہتی نام لے دیتی اور وہ لڑکا اسی کا سمجھا جاتا وہ شخص اس سے انکار کی جرأت نہیں کرسکتا تھا،چنانچہ نکاح اس طور پر تھاکہ بہت سے لوگ کسی عورت کے پاس آیا جایا کرتے تھے،عورت اپنے پاس کسی بھی آنے والے کو روکتی نہیں تھی،یہ کسبیاں ہوتی تھیں،اس طرح کی عورتیں اپنے دروازوں پر جھنڈے لگائے رہتی تھیں جونشانی سمجھی جاتی تھی،جو بھی چاہتا ان کے پاس جاتا،اس طرح کی عورت جب حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو اس کے پاس آنے جانے والے جمع ہوتے اور کسی قیافہ جاننے والے کو بلاتے اور بچہ کا ناک نقشہ جس سے ملتا جلتا ہوتا،اس لڑکے کو اسی کے ساتھ منسوب کردیتے اور وہ بچہ اسی کا بیٹا کہا جاتا،اس سے کوئی انکار نہیں کرتا تھا پھر جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ رسول ہوکر تشریف لائے توآپ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کو باطل قرار دے دیا،صرف اس نکاح کو باقی رکھا جس کا آج کل رواج ہے۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا کیونکہ اللہ کے رسو ل نے اسی نکاح کو باقی رکھا ہے،جودستور وقت کے مطابق رائج تھا۔ ٭ ((أیما امراۃ نکحت بغیر إذن ولیہا فنکاحہا باطل فنکاحہا باطل )) یہ حدیث مبارکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سمیت،کثیر صحابہ کرام حضرت علی،حضرت عبد اللہ بن عباس،ابو موسٰی اشعری،اور عامر بن عبد اللہ قیس رضی اللہ عنہم وغیرہ سے مروی ہے اور ہر مقام پر اس کے روایوں کی ایک کثیر تعداد ہے۔حدیث کی سات کتابوں میں سے اس حدیث کی ۳۵ سے زائد سندیں ملی ہیں۔بطور مثال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث پیش کی جاتی ہے،وہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أیما إمرأۃلم ینکحھا الولی فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل فإن أصابھا فلھا مھرھا بما أصاب منھا فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ)) ۳۰؎ ’’جس عورت کا نکاح اس کے ولی نے نہیں کیا تو اسکانکاح باطل ہے،باطل ہے،باطل ہے۔اگر ولیوں میں جھگڑا ہو تو سلطان ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں۔‘‘ اس حدیث کے بارے میں محدثین کے اقوال ٭ علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ حدیث:((لا نکاح إلا بولی))’حسن‘(معتبر )ہے اور کئی محدثین نے اس کو صحیح کہا ہے۔‘‘ ۳۱؎ ٭ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر حکم لگایا ہے ’’ہذا حدیث حسن‘‘۳۲؎ ٭ علامہ ذیلعی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’وقد صحت الروایۃ فیہ عن ازواج النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم عائشہ و ام سلمہ،و زینب بنت جحش وقد صحت الروایات عن ائمہ الاثبات بسماع الرواۃبعضہم من بعض،فلا تعلل ھذہ الروایات‘‘ ۳۳؎ ’’ولی کے بغیر ہونے والے نکاح کے باطل ہونے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا،ام سلمہ رضی اللہ عنہا
Flag Counter