٭ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس آیت میں اس امر کی دلیل ہے کہ عورت خود اپنا نکاح نہیں کرسکتی اور نکاح بغیر ولی کے نہیں ہوسکتا چنانچہ ترمذی اور ابن جریر نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث وارد کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’:عورت،عورت کا نکاح نہیں کرسکتی اور نہ عورت اپنا نکاح آپ کرسکتی ہے۔‘‘۲۵؎ ٭ مزید برآں مشہور مفسرقرآن ابن جریر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اور اس آیت کریمہ میں اس شخص کی بات کے صحیح ہونے پر واضح دلیل ہے جس نے یہ کہا ہے کہ ولی جو عصبہ(نسبی رشتہ داروں) میں سے ہو،کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔۲۶؎ ٭ مذکورہ مؤقف کی تائید میں قرآن کا ایک اور مقام بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے: ﴿قَالَ إِنِّیْ أُرِیْدُ أَنْ أُنْکِحَکَ اِحْدَی ابْنَتَیَّ ھَاتَیْنِ عَلَی اَنْ تَاْجُرَنِیْ ثَمَانِیَ حِجَجٍ﴾ یعنی حضرت شعیب علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایاکہ اگر توآٹھ سال تک میری خدمت میں رہے تومیں اپنی بیٹی تیرے نکاح میں دئے دوں گا،گویا ’’اُرِیْدُ اَنْ اُنْکِحَکَ‘‘ کے الفاظ محل استشہاد ہیں الغرض امام قرطبی رحمہ اللہ کی تفسیر بھی،اسی مؤقف کی مؤید ہے،لکھتے ہیں: ’’وفی ھذہ الآیۃ دلیل علی أن النکاح إلی الولی لاحظ للمرأۃ فیہ لأن صالح مدین تولاہ و بہ قال فقھاء الأمصار۔ھذہ الآیۃ تدل علی أن للأب أن یزوج ابنتہ البکر البالغ من غیر إستئمار‘‘۲۷؎ اور اس آیت میں دلیل ہے اس بات پر کہ بے شک نکاح کا اختیار ولی کی طرف ہے،اس میں عورت کا کوئی حصہ نہیں جیسا کہ مدین کے نیک آدمی(شعیب علیہ السلام) اپنی بیٹی کے ولی بنے تھے اور یہی جمہور فقہاء کا قول ہے۔یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ باپ کا یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی بالغ بیٹی کا نکاح اس کے مشورہ کے بغیر(صرف خاموش رہنے پر)کرسکتا ہے۔ 2۔ نکاح کے لئے ولی کی ضرورت ……ازروئے حدیث 1۔ احادیث سے ولی کی حیثیت کا تعین ٭ باب من قال((لا نکاح إلا بولي)) ۲۸؎ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے باب باندھ کر،مؤقف اختیارکیا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ پھرا پنے مؤقف کی تائید میں تین آیات قرآنیہ نقل کی ہیں پھر حدیث معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بطور دلیل پیش کی ہے بعد ازاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا درج ذیل فرمان نقل کیا ہے۔ ’’أن عائشۃ زوج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخبرتہ أن النکاح فی الجاہلیۃ کان علی أربعۃ انحاء فنکاح منہا نکاح الناس الیوم یخطب الرجل الی الرجل وَلِیَّتَہٗ او ابنتہ فَیُصْدِقُہَا ثم ینکحہا ونکاح آخر ........فلما بعث محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم بالحق ہدم نکاح الجاہلیہ کلَّہٗ الا نکاح الناس الیوم‘‘ ۲۹؎ ’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح چار طرح سے ہوتے تھے،ایک صورت تویہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں،ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کرتا،دوسرا نکاح یہ تھاکہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے جب وہ حیض سے پاک ہوجاتی توکہتا تو فلاں شخص کے پاس چلی جااور اس سے منہ کالا کرا لے اس مدت میں شوہر اس سے جدا رہتا اور اسے چھوتا بھی نہیں،پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہوجاتا جس سے وہ عارضی طور پر صحبت |