یزوجون النساء اللواتی یتولون أمرہن وأن المرأۃلا تزوج نفسہا بالاستقلال و لا بد من الولی‘‘ ۱۸؎ ’’تنکحوا کے بعد خصوصی اہتمام سے تاء مضموم کے ساتھ تنکحوا لانے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ صرف مرد حضرات ہی ہیں جو اپنا یا اپنی زیر نگرانی عورت کا نکاح کر سکتے ہوں اور عورت اپنا نکاح خود نہیں کرسکتی کیونکہ عورت کے لئے ولی ازبس ضروری ہے۔‘‘ عورت کے لئے ولی کا ضروری ہونا،درج ذیل آیت کریمہ سے بھی ثابت ہے،ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ﴾۱۹؎ یعنی کہ بے شوہر عورتوں کا نکاح کروا دیا کرو۔اس آیت میں بھی عورتوں کو خود نکاح کر لینے کا حکم نہیں دیا بلکہ مردوں کو خطاب کیا ہے کہ وہ عورتوں کے نکاح میں ولی کے فرائض سرانجام دیں۔ ٭ اور امام بخاری رحمہ اللہ کا ’’باب من قال لانکاح إلا بولی‘‘ کے بعد،اس آیت کا بطور تائید تذکرہ بھی،اسی مؤقف کو لازم کرتاہے۔۲۰؎ ٭ امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر اس انداز سے کرتے ہیں: ’’وفی ہذا دلیل علی أن المرأۃ لیس لھا أن تنکح نفسھا بغیر ولی وھو قول أکثر العلماء‘‘ ۲۱؎ ’’یعنی کہ عورت کا کوئی حق نہیں کہ وہ بغیر ولی کے اپنا نکاح خود کرلے اور یہی اکثر علماء کا مؤقف ہے۔‘‘ مزید برآں،عورت کے نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضرور ی ہے،درج ذیل آیت کریمہ سے بھی مترشح ہوتاہے: ﴿فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ﴾۲۲؎ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب من قال ’’لا نکاح إلا بولی‘‘ کے عنوان سے باب باندھا ہے اور بطور تائید اس آیت کا تذکرہ کرنے کے بعد حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کا تفصیلی واقعہ ذکر کیا ہے،اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ان(معقل بن یساررضی اللہ عنہ ) کی بہن کو طلاق دینے کے بعد اس کے پہلے شوہر نے ان سے دوبارہ نکاح کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے اپنی بہن کی مرضی کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا اور قسم کھائی کہ اب اللہ کی قسم میں اسے دوبارہ تمہارے نکاح میں نہیں دوں گا۔لیکن مذکورہ آیت کے نزول کے بعد،حضرت معقل رضی اللہ عنہ نے قسم کا کفارہ اداکرتے ہوئے اپنی بہن کا نکاح اس کے سابقہ خاوند سے کردیا۔مذکورہ واقعہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ عورت کی خواہش کے باوجود اس کو نکاح کرنے کا اختیار نہیں دیا بلکہ ولی کو حکم دیا کہ وہ عورت کا نکاح کردے۔۲۳؎ بعض لوگوں نے ’’فلا تعضلوہن‘‘ کے الفاظ سے استدلال کیا ہے کہ عورتوں کو اپنا نکاح خود کر لینے دو لیکن یہ استدلال درست نہیں کیونکہ آیت کا شان نزول،نکاح میں ولی کے ضروری ہونے پر دلالت کرتا ہے اور حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے بھی،مذکورہ آیت سے یہی مفہوم سمجھا ہے تبھی توانہوں نے قسم کے باوجود اپنی بہن کا نکاح کردیا،جیسا کہ’’ فزوجہا إیاہ‘‘ کے الفاظ سے صراحت موجود ہے۔ علاوہ ازیں،تمام مفسرین اور ائمہ کرام نے یہی مفہوم بیان کیا ہے بطور نمونہ چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔ ٭ امام شافعی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’ وہذا ابین ما فی القرآن من أن للولی مع المراۃفی نفسہا حقا‘‘۲۴؎ اور یہ قرآن مجید میں اس موضوع پر واضح ترین دلیل ہے کہ(نکاح میں)ولی کا عورت کی ذات کے بارے میں واضح حق ہے۔ |