ایک نبی کی بیوی اور ایک نبی کی بہو ہوکر بھی صبر شکر کرنے کی بجائے جزع فزع اورشکوہ و شکایت کی روش اختیار کرے اور انہوں نے ایسی بدسلیقہ عورت کو اپنے گھرانے کے لائق نہ سمجھتے ہوئے بیٹے سے طلاق کا عندیہ ظاہر کیا،جو بیٹے نے پورا کردیا۔پھر اس کی سندپر تائید اس حدیث کے اگلے الفاظ سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ ایک عمر صبر کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ملنے کے لیے گئے۔اس باربھی وہ گھرنہ ملے البتہ ان کی نئی بیوی سے ملاقات ہوئی۔ توحضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے پوچھا۔آپ کی گزر بسر کیسی ہو رہی ہے۔تو اس پر عورت نے کہا: ’’نحن بخیر وسعۃ واثنت علی اللّٰہ عزوجل‘‘ ’’ ہم خیر و عافیت کے ساتھ ہیں بہت خوشحال ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کیا۔‘‘ صحیح بخاری کی اگلی روایت میں ہے کہ اس خاتون نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت کرنا چاہی اور اپنی حالت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ ’’ألا تنزل فتطعم و تشرب ‘‘ ’’ آپ نیچے تشریف رکھیں میں آپ کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرتی ہوں۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں خیر و برکت کی دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ جب تمہارا شوہر واپس آئے تو اسے میری طرف سے سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ قائم رکھے۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام واپس آئے تو ان کی اس بیوی نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک اچھے بزرگ آئے تھے اور اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خوب تعریف کی پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا کہ وہ آپ کوسلام کہتے تھے اور آپ کو یہ مشورہ دے گئے ہیں کہ اپنی چوکھٹ کو سلامت رکھنا۔اس پر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ وہ میرے والد صاحب تھے اور مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں نکاح میں برقرار رکھوں۔۴۲؎ اس طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ’’کانت تحتی امرأۃ وکنت أحبھا وکان عمر یکرہہا فقال لی طلقہا فأبیت فأتی عمر النبی فذکر ذلک لہ فقال النبی(یاعبداللّٰه ) طلقہا‘‘۴۳؎ میری ایک بیوی تھی جس سے میں بہت محبت کرتا تھا جب کہ(میرے والد)حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے ناپسندکرتے تھے چنانچہ انہوں نے مجھے کہا کہ اس عورت کو طلاق دے دو۔لیکن میں نے انکار کردیا۔عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(اے عبداللہ رضی اللہ عنہ) اس عورت کو طلاق دے دو۔‘‘ واضح رہے کہ بعض کتب میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس عورت کو طلاق دے دی۔اور مسنداحمد کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا ’اطع اباک‘(اس مسئلہ میں )اپنے باپ(کے مشورے کو مان لو) کی اطاعت کرو۔۴۴؎ مذکورہ بالادونوں احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ شوہر کو اپنی بیوی کو طلاق دینے سے قبل اپنے والدین سے مشورہ کر لینا چاہیے اور اگر والدین بیوی کو طلاق دینے کا کہیں تواس کی اگر کوئی معقول وجہ ہو جیسے پہلی حدیث میں وجہ یہ تھی کہ ایک نبی کی بیوی ناشکر ی کرنے والی اور بے صبر نہیں ہونی چاہیے اورمیزبانی میں کسی قسم کی کسرنہ چھوڑنے والی ہونی چاہیے اور دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: |