Maktaba Wahhabi

263 - 372
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’والبکر تستأذن فی نفسہا وإذنہا صماتہا‘‘۳۹؎ ’’کنواری سے اجازت(مشورہ ) لی جائے گی اور اس کی اجازت اس کا خاموش رہنا ہے۔‘‘ ان صریح فرامین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باوجود اگر ولی اپنی جوان لڑکی کا نکاح کہیں زبردستی کردیتا ہے تو شریعت کی رو سے اس لڑکی کو وہ نکاح منسوخ کرانے کا حق حاصل ہے۔ حضرت خنسأ بنت خذام انصاریہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ’’إن أباہا زوجھا وہی ثیب فکرہت ذلک فاتت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرد نکاحہا‘‘۴۰؎ ’’وہ بیوہ تھیں اور ان کے والد نے ان کا نکاح کردیا جبکہ وہ اس کو ناپسند کرتی تھیں چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں(اور اس بات کا ذکر کیا ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(اس کے والد کا کیا ہوا )نکاح رد کر دیا۔‘‘ گویا مذکورہ تمام صریح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کو اپنی اولاد سے مشورہ کرکے اور اولاد کو خود بخود نکاح کرنے کی بجائے اپنے والدین سے مشاورت کے ساتھ نکاح کے معاملے کو حل کرنا چاہیے۔ورنہ شریک حیات کے حوالے سے ناکامی و ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ طلاق اولاد یعنی لڑکے کو چاہیے کہ والدین کے مشورے کو مانتے ہوئے اپنی بیوی کوطلاق دے دے جسطرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مشورے سے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کے مشورے کی اطاعت کرتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ صحیح بخاری کی ایک ر وایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ملنے کے لیے مکہ گئے مگر وہ گھر موجود نہ تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی بیوی سے پوچھا کہ تمہاری زندگی کیسی گزر رہی ہے تو اس نے(بجائے اس کے کہ صبر و شکر کا اظہار کرتی ) کہا: ’’نحن بشر،نحن فی ضیق و شدۃ فشکت إلیہ‘‘ ’’ہمارا تو بہت برا حال ہے۔ہم تو بڑی تنگی اور مصیبت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘‘ گویا خوب شکوہ و شکایت کی اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا ’’ اچھا جب تمہارا خاوند آئے تو اسے میری طرف سے سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل لے،، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام چلے گئے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام گھر تشریف لائے تو ان کی بیوی نے ان کے بارے میں بتایا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ وہ میرے والد تھے اور مجھے یہ مشورہ دے گئے ہیں کہ میں تمہیں طلاق دے دوں۔چنانچہ انہوں نے اس عورت کو طلاق دے دی۔۴۱؎ روایت کے سیاق سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے طلاق کا مشورہ اس لئے دیاکہ آپ مہمان کی حیثیت سے ان کے ہاں گئے تھے۔اور اس عورت نے خاطر تواضع کرنے کے بجائے اپنا دکھڑا سناناشروع کردیا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پسند نہ آیا کہ
Flag Counter