’’ان عندعبداللّٰه بن عمر امرأۃ قدکرہتہالہ‘‘۴۵؎ ’’ بلاشبہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایسی عورت سے نکاح کر رکھا ہے جیسے میں فی الواقع عبداللہ کے لیے مکروہ خیال کررہا ہوں۔‘‘ گویا ’’کرہتہا لہ ‘‘ کے الفاظ اس کی تائید کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس عورت کو،ابن عمر رضی اللہ عنہ کے دینی اور دنیوی امور کے لیے باعث خطرہ خیال کرتے تھے۔اور یہ ایک معقول وجہ تھی جس کی بنا پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی حمایت کی تھی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو طلاق دینے کا مشورہ دیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ ع نہ کے مطالبہ کو معقول عذر کے ساتھ مربوط کرنے کا نکتہ محض راقم ہی کا بیان کردہ نہیں بلکہ کئی ایک فقہاء عرصہ قبل اس کی طرف اشارہ فرما چکے ہیں۔1۔ علامہ احمدعبدالرحمن البنا رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ’’الظاہر ان عمر ماکرہہا الالکونہ رای انہا غیر صالحۃ لابنہ وغرضہ بذلک المصلحۃ لاسیما وقد کان من الملہمین‘‘۴۶؎ ’’ ظاہر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ عورت اس وجہ سے ناپسندتھی کہ ان کے نزدیک وہ آپ کے صاحبزادے کے لیے موزوں نہ تھی اس معاملے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پیش نظر ضرور کوئی مصلحت ہوگی بالخصوص اس لیے کہ آپ الہام ربانی کے حامل تھے۔‘‘ نیز فرماتے ہیں: ’’الذی مظہر أن النبی لم یأمر عبداللّٰه بطلاق امرأتہ الا لکونہ رای صحۃ نظر عمر‘‘ایضًا ’’ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اسی لیے طلاق دینے کا حکم دیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ کا خیال صحیح ہوگا۔‘‘ اسی طرح شیخ الحسن محمدبن عبدالہادی سندھی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں: ’’فیہ أن طاعۃ الوالدین متقدمۃ علی ہوی النفس إذا کان أمرہما أوفق بالدین إذا الظاہر أن عمر ما کان مکرہہا والاامرابنہ بطلاقہا الا لما یظہر لہ فیہا من قلۃ الدین‘‘۴۷؎ ’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ والدین کی اطاعت خواہش نفس پر ترجیح رکھتی ہے۔لیکن اس وقت جب والدین کا حکم دین اسلام سے موافقت رکھتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس عورت کو ناپسند کرنا اور اپنے بیٹے کو اسے طلاق دینے کا حکم اور مشورہ دینا صرف اس وجہ سے تھا کہ اس عورت کے دین و ایمان کی کمزوری آپ کے سامنے ظاہرہوئی تھی۔‘‘ والدین کے حکم کو بطور مفید مشورہ سمجھتے ہوئے بیوی کو طلاق دینے کے حوالے سے ایک واقعہ حسب ذیل ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: ’’ إن أبی یأمرنی أن أطلق امرأتی‘‘ ’’ میرے والد نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں۔‘‘ تو کیا میں طلاق دے دوں ؟ امام احمد رحمہ اللہ نے اسے فرمایا: ’لا تطلقہا‘ تم اسے طلاق نہ دو۔ وہ آدمی کہنے لگا کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ حکم نہیں دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے اور پھر |