Maktaba Wahhabi

257 - 372
اَوْ بُیُوْتِ اٰبَائِکُمْ اَوْبُیُوْتِ اُمَّھٰتِکُمْ……الخ﴾۲۰؎ ’’ کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا یا لنگڑا یا مریض(کسی کے گھر سے کھائے ) اور نہ تمہارے اوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں وجہ دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں پر دس(۱۰) قسم کے رشتہ دار بیان کیے ہیں جن کے گھروں سے کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ان دس(۱۰) اوصاف میں اولاد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے جیسا کہ قرآن مجید میں’ أو بیوت أولادکم‘ کے الفاظ نہیں ہیں کیونکہ’ اولاد‘ من بیوتکم کے حکم میں ہی داخل ہے۔ اس سے معلوم ہو ا کہ اولاد کے گھر،والدین کے اپنے گھروں کی مانند ہوتے ہیں اس لیے اولاد کے گھروں کا الگ سے ذکر نہیں کیا گیا لہذا اولاد کے گھر بھی والدین کے ہیں بلکہ والدین کے ہی ہیں۔ اس سے ثابت ہواکہ حدیث ’أنت وما لک لأبیک‘ در حقیقت،کتاب اللہ سے ہی ماخوذ اور اس آیت کے ضمن میں موجود مخفی نتائج اور مضمرات کی تفصیل ہے۔۲۱؎ 2۔ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا اپنے باپ کے لیے عطیہ(ہبہ ) بنایا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے﴿وَوَھَبْنَا لَہُ إِسْحَاقَ وَ یَعْقُوْبَ ﴾۲۲؎ ’’ اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا کیے۔‘‘ لہٰذا جو چیز باپ کو ہبہ کی گئی ہے اس میں باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے غلام کی ما نند اس اولاد کا مال بھی لے سکتا ہے۔۲۳؎ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل 1۔ ام المومنین سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور وہ اپنے باپ کے ساتھ اس کو دئیے گئے قرض کے ساتھ جھگڑا کر رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ أنت وما لک لأبیک ‘‘ تو اور تیرا مال تیرے باپ کے لیے ہے۔۲۴؎ 2۔ عمر و بن شعیب رضی اللہ عنہ عن ابیہ عن جدہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور وہ اپنے باپ کے ساتھ جھگڑا کر رہا تھا اس آدمی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ(میرا باپ ) میرے مال کا ضرورت مند ہے توآپ 1نے فرمایا ’ انت و مالک لابیک ‘ تو اور تیرا مال تیرے باپ کے لیے ہے۔۲۵؎ 3۔ سیدنا عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ عن ابیہ عن جدہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا میرے پاس مال اور باپ ہے اور میر ا باپ میرے مال کا صفایا کرنا چاہتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انت ومالک لابیک ‘ تو اور تیرا مال تیرے باپ کے لیے ہے مزید فرمایا کہ ہماری اولاد یں تمہاری بہترین کمائی ہیں پس تم اپنی اولادوں کی کمائی سے کھاؤ۔۲۶؎ تیسرا قول یہ قول بھی دوسرے قول کی طرح ہے کہ باپ اپنے بیٹے کے مال پر قبضہ کر سکتا ہے لیکن انہوں نے چند شرائط لگا دی ہیں جن کی موجودگی میں باپ اپنے بیٹے سے مال لے سکتا ہے۔
Flag Counter