Maktaba Wahhabi

258 - 372
قائلین یہ حنابلہ کا قول ہے اور اسی کے مطابق فتوی ٰ دیا جاتا ہے۔۲۷؎ شرائط 1۔مال بیٹا کی ضرورت سے زائد ہے تاکہ اس مال کو اپنی ملکیت میں لینے سے بیٹے کو ضرر نہ پہنچے کیونکہ ضرر سے منع کیا گیاہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ لاضرر و لا ضرار‘‘۲۸؎ لہٰذا باپ،اپنے بیٹے کے ایسے مال کو اپنی ملکیت میں نہیں لے سکتا جو اس کی ضروریات زندگی سے متعلق ہو۔جیسے کوئی مشینر ی جس سے وہ روزی کماتا ہے یا تجارت میں راس المال وغیرہ کیونکہ شریعت کی نظر میں انسان کی ضرورت اس کے فرض پر مقدم ہے جو باپ پر بھی بالاولیٰ مقدم ہے۔ چنانچہ فقہاء و تابعین میں عطابن ابی رباح مکی سے منقول ہے کہ باپ کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے مال کو اپنی ملکیت میں لے سکتا ہے بشرطیکہ بیٹے کو اس سے ضررنہ ہو۔ 2۔ باپ وہ مال اپنے لیے حاصل کرے نہ کہ وہ دوسرے بیٹے کو دے دے یعنی ایک(زید) کا مال لیکر دوسرے بیٹے(عمرو ) کو نہ دیا جائے۔کیونکہ نبی کریم 1 نے منع فرمایا ہے کہ باپ اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو مال عطیہ وغیرہ دیدے اور دیگر کو چھوڑ دے۔۲۹؎ جب باپ اپنے ذاتی مال سے اپنی اولاد میں،عطیہ دینے کے لیے کسی کو خاص نہیں کر سکتا۔تو ایک بیٹے کے مال سے لیکر دوسرے کو دینے کے لیے خاص کرنا بالاولیٰ حرام ہے۔ 3۔ بیٹے کے مال کو اس وقت اپنی ملکیت بنانا جب کہ بیٹا یا باپ مرض الموت کی حالت میں نہ ہوں۔کیونکہ مرض کے ساتھ ملکیت بنانے کا وقت ختم ہو گیا۔ 4۔ باپ کافر اور بیٹا مسلمان ہو تو اس وقت بھی باپ اپنے بیٹے کے مال سے کچھ نہیں لے سکتا بالخصوص اس وقت جب بیٹا کا فر ہونے کے بعد مسلمان ہو جائے اور اس کا باپ کفر ہی پر قائم ہو۔۳۰؎ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اسی سے مشابہ صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ باپ مسلمان ہو اور بیٹا کافر ہو اس صورت میں بھی باپ اپنے بیٹے کے مال سے کچھ نہیں لے سکتا کیونکہ اختلاف ادیان سے ولایت اور وراثت منقطع ہو جاتی ہے‘‘۔ 5۔ قول یا نیت سے قبضہ کر لینے سے پہلے بیٹے کے مال میں باپ کا تصرف غیر صحیح ہے۔اگرچہ غلام ہی آزاد کرنا ہو کیونکہ بیٹے کی اپنے مال پر مکمل ملکیت ہے اور وہ اپنے مال میں تصرف کا اختیار رکھتا ہے اور اپنی لونڈی کے ساتھ مباشرت کر سکتاہے اگر لونڈی کی ملکیت بیٹے اور باپ میں مشترک ہو تو وہ اس لونڈی کے ساتھ بالکل مباشرت نہیں کر سکتا جیسا کہ وہ کسی اور شخص کے ساتھ مشترکہ لونڈی سے مباشرت نہیں کر سکتا ہے الغرض باپ کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس شے کو اپنی ملکیت بنانا چاہتاہے اسے پہلے اپنے قبضہ میں لے اور پھر اس میں تصرف کرے،بنا بریں باپ اپنے بیٹے کے قرض یا جرمانے کا مالک نہیں بن سکتا کیو نکہ وہ ابھی تک قبضہ میں نہیں آیا۔
Flag Counter