کا یاد کیا ہوا قرآن پوری زندگی یاد رہتا ہے اور بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کا انداز یہ ہونا چاہیے کہ ان کو آہستہ آہستہ تدریجاً پڑھایا جائے تاکہ جو کچھ وہ پڑھیں وہ چیز ان کے دلوں پر نقش ہوتی چلی جائے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کی پیروی میں اپنے شفتین مبارک جلدی جلدی جنبش دیا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیت نازل فرما کر آپ کو اس بات کا درس دیا کہ قرآن کو جلدی جلدی پڑھنے کی بجائے آہستہ آہستہ پڑھا کریں۔اس وقت اس آیت کریمہ کے مخاطب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی لیکن حقیقت میں تعلیم پوری امت اسلامیہ کے بڑوں کو بالعموم اور چھوٹوں کو بالخصوص دی جا رہی تھی۔قرآن مجیدمیں ہے: ﴿لاَتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ ﴾۵۸؎ ’’کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبرارض وسماء اپنے شفتین مبارک کوجلدی جلدی حرکت نہ دیاکریں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ قال کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا نزل علیہ الوحی حرک بہ لسانک ووصف سفیان یرید ان یحفظہ فأنزل اللّٰہ﴿لاَتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ ﴾وقال ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ کان یحرک شفتیہ إذا أنزل علیہ فقیل لہ﴿لاَتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ ﴾۵۹؎ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب نزول وحی کاسلسلہ شروع ہوتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی جلدی اپنی زبان مبارک کو حرکت دیتے حضرت سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کو حفظ کرنے کی نیت سے اپنے ہونٹوں کو حر کت دیتے تھے۔‘‘ گویا اولاد کی بچپن میں جیسی تربیت کر دی جائے وہ صغر سنی کی تربیت حالت شبابی اور حالت شیبی میں اپنا بہت زیادہ اثرو رسوخ رکھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کفار مکہ اپنی عورتوں اور اپنے بچوں کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تلاوت قرآن سننے سے روکتے تھے۔تاکہ یہ ہمارے باطل و مردہ مذہب کو ترک کرتے ہوئے حلقہ بگوش اسلام نہ ہو جائیں وہ اس بات سے باخوبی آگاہ تھے کہ اگر ہمارے بچے قرآن کریم سنتے رہے تواس کی تاثیر کا رنگ ان کے جسم وجان پرچڑھ جائے گا اور پھر ہمیں محمد1 کی رسالت کو جاننا پڑے گا۔صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو برالدغنہ اپنی پناہ میں رکھتے ہوئے انہیں واپس لائے تو انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنائی اور اس میں اونچی آواز سے تلاوت قرآن کرتے تو قریش مکہ کی عورتیں اور بچے اکٹھے ہو جاتے اور قرآن سنتے۔۶۰؎ گویاوالدین کے فرائض اوراولاد کے حقوق میں سے یہ بات ہے کہ ان کی اچھی تربیت کی جائے اورتربیت کرتے ہوئے ایمانی تربیت کواولین مقام حاصل ہے اورتلاوت قرآن اورمحبت رسول ایمان کے جزو لازم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امام غزالی رحمہ اللہ کی وصیت امام غزالی رحمہ اللہ والدین کواپنی اولادکے بارے وصیت کرتے ہیں کہ ’’بچے کوقرآن کریم،احادیث نبویہ اورنیک لوگوں کے واقعات اوردینی احکام کی تعلیم دی جائے۔‘‘۶۱؎ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ کامؤقف علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ نے ’’مقدمہ ابن خلدون ‘‘میں بچوں کوقرآن کریم کی تعلیم دینے اوریادکرانے کی اہمیت کی جانب اشارہ کیاہے اوربتایاہے کہ مختلف اسلامی ملکوں میں تمام تدریسی طریقوں اورنظاموں میں قرآن کریم کی تعلیم ہی اساس اوربنیاد ہے اس لیے کہ |