قرآن کریم دین کے شعائرمیں سے ہے۔جس سے عقیدہ مضبوط اورایمان راسخ ہوتاہے۔۶۲؎ ابن سیناکی والدین کونصیحت ابن سینا لکھتے ہیں: ’’جیسے ہی بچہ جسمانی اورعقلی طورسے تعلیم وتعلم کے لائق ہوجائے تواس کی تعلیم کی ابتداء قر آن کریم سے کرناچاہیے تاکہ اصل لغت اس کی گٹھی میں پڑے اورایمان اوراس کی صفات اس کے نفس میں راسخ ہوجائیں۔۶۳؎ اخلاقی تربیت یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان کااخلاق وکرداراس کے عروج وزوال کاباعث ہوتاہے جوقوم اخلاق و کردارکے لحاظ سے تعلیم یافتہ ہوگی عروج وترقی اس کے قدم چومے گی اورجوقوم اخلاق سوء کی حامل ہوگی پستی وشکست سے اپنے دامن کومحفوظ نہ رکھ سکے گی۔اس اعتبارسے قرآن کریم ایسی مقدس کتاب ہے جوسرچشمہ اخلاق حسنہ ہے اورنبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مجمسہ خلق اعلیٰ ہیں جس کی مثال قرآن کریم میں دی گئی ہے۔ ﴿وَإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٌ﴾۶۴؎ اور قرآن کر یم کے بارے میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ان اللّٰہ یرفع بہٰذ الکتاب أقواما ویضع بہ آخرین)) ۶۵؎ گویاجوخاندان اورقوم سرچشمہ اخلاق حسنہ سے روگردانی کی روش اختیارکرے گاذلت ورسوائی کی کھائیوں میں جاگرے گا لہذا وہ اولاداپنے والدین کانام روشن اوردنیاوآخرت میں سرخ روہوں گے جنہوں نے اخلاقی بلکہ ہر لحاظ سے اعلیٰ تربیت کی ہوگی اوراعلیٰ تربیت کے لئے ہمیں قرآن وسنت سے رشتہ قائم کرناہوگا۔ بچے کی تربیت کے سلسلہ میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 1۔ عن عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال((من حق الولد علی الوالدین أن یحسن رؤبہ ویحسن اسمہ)) ۶۶؎ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اولاد کا والدین پر یہ حق ہے کہ وہ انہیں اچھا ادب سکھائیں اور ان کااچھا نام رکھیں۔‘‘ گویاقرآن وسنت کی روشنی میں ہی اولادکی اچھی تربیت ہوسکتی ہے۔اور انکے اخلاق وکردار جب روحانیت سے سرشار ہوں گے تو خاندان بلکہ پورا معاشرہ اعلیٰ اخلاق سے ہمکنار ہو گا اور جب بچے کی تربیت اسلامی عقیدہ سے بعید اور دینی توجیہات سے عاری ہو گی اور اللہ سے تعلق نہ ہو گا توبلاشبہ بچہ فسق وفجور اور آزادی میں پروان چڑھے گا اور الحاد و گمراہی میں پلے بڑے گابلکہ اپنے نفس کو خواہشات کا تابع بنا دے گا اور جھوٹ اور گالی گلوچ کا مرتکب ہو گا جو کہ اخلاق وکردار پستی تنزلی میں گرادینے والے جرم ہیں۔جن کی تفصیل پیش کی جاتی ہے۔ |