٭ شیخ ابن الاخوہ نے تحریرفرمایا ہے: ’’(سرپرست) بچے کو ایسی چھڑی نہ مارے کہ اس کی ہڈی ٹوٹ جائے اور نہ ہی اتنی چھڑی نرم ونازک ہو کہ بچے کودرد کا بھی احساس نہ ہو بلکہ چھڑی درمیانی قسم کی ہو۔کولہوں،رانوں اور پاؤں کے نچلے حصے میں مارے کیونکہ ان جگہوں پر مارنے سے بیماری یا زخم کا اندیشہ نہیں ہوتا۔‘‘۴۱؎ حکم نمازنہ دینے والے سرپرست کو سزا بعض علماء امت نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ جو سرپرست حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے مطابق بچوں کونمازکاحکم نہ دیں انہیں اسلامی حکومت کی طرف سے سخت سزادی جائے۔ ٭ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ہر بڑے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ماتحت تمام افراد کو نماز کا حکم دیں حتی کہ نابالغ بچوں کو بھی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو جبکہ دس سال کی عمر میں اسکے چھوڑنے پر سزا دو اور ان کے بستروں کو جدا جدا کر دو۔جس کے پاس غلام،یتیم،نابالغ لڑکا ہو اور وہ اس کو نماز کا حکم نہ دے تو اس کی شدید سزا دی جائے گی کیونکہ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے۔‘‘۴۲؎ بچوں کو دیگرنیک اعمال کاحکم دینا اکابر علماء وفقہاء نے مذکورہ دونوں احادیث سے یہ بات اخذکی ہے کہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔کہ وہ بچوں کوسات سال کی عمرمیں دیگر اچھے کاموں کاحکم دیں تاکہ وہ ان اعمال سے آشناہوجائیں جن کی بجاآوری ان کی طبیعت کاحصہ بن جائے اوربالغ ہونے کے بعدان کاکرناسہل اورآسان ہوجائے۔ ٭ امام رافعی رحمہ اللہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ آئمہ اربعہ نے فرمایا ہے: ’’باپوں اور ماؤں پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے بچے کو سات سال کی عمر میں پہنچنے پر طہارت،نماز،شریعت کے دیگر امور کی تعلیم دینا شروع کر دیں اور دس سال کی عمر ہونے پر ان اعمال میں کوتاہی کرنے پر ان کی پٹائی کریں۔‘‘ ۴۳؎ حکم نمازکے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال سلف صالحین نے بچوں کو حکم نماز دینے کے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت کا خوب ادراک کیا اور اس کی جھلک ان اقوال واعمال میں نمایاں نظر آتی ہے اسی بات کے متعلق چند شواہد ذیل میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے پیش کیے جارہے ہیں۔ 1۔عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کاقول حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’حافظوا علی ابناء فی الصلوات‘‘۴۴؎ ’’نمازوں کے متعلق بچوں کی حفاظت کرو۔‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ بچوں کو وقت نماز سے آگاہ کرنے کاشدید اہتمام کرو۔تاکہ وہ نماز قائم کرنے والے اور نماز کے عادی ہو |