Maktaba Wahhabi

221 - 372
اسے نماز کا حکم دے۔اور اس پر یہ بھی واجب ہے کہ دس سال کی عمر میں(ترک نماز پر) اس کی پٹائی کرے،اور سرپرست پر یہ بھی لازم ہے کہ جن باتوں کا جاننا ضروری ہے اسکی بچے کو تعلیم دے یا اسکا بندوبست کرائے۔‘‘۳۵؎ ٭ علامہ شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سات سال کی عمرمیں بچوں کونمازکاحکم دینا اوردس سال کی عمرمیں بچوں کوترک نمازپرپٹائی کرناواجب ہے۔‘‘۳۶؎ بچیوں کونمازکاحکم دینا نمازکاحکم صرف بچوں کوہی نہ دیاجائے بلکہ سرپرست حضرات اس بات کاحکم اپنی بچیوں کو بھی دیں کیونکہ پہلی حدیث میں وارد لفظ(الصبی)میں بچی بھی شامل ہے۔نماز کا حکم دینے کے سلسلے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں۔اس بارے میں علماء امت کاکوئی اختلاف نہیں ہے۔۳۷؎ دوسری حدیث میں وارد لفظ(اولادکم) بھی دونوں صنفوں کو شامل ہے۔اس بارے میں ملا علی قاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ’’لفظ اولادکم‘‘ مذکر اور مؤنث دونوں کو شامل ہے۔۳۸؎ گویاامام نووی رحمہ اللہ اور ملا علی قاری اس بات پرمتفق ہیں کہ نماز کا حکم دینے میں مذکر و مؤنث تمام اولاد میں کوئی فرق نہیں ہے،سات سال کی عمر ہونے پرتمام اولاد کو نماز کا حکم دیا جائے اور دس سال کی عمر ہونے پر ترک نماز پر سزا دی جائے۔ بچوں کو نماز کا حکم دینے میں حکمت چھوٹی عمرمیں بچوں کو نمازکاحکم دینے میں حکمت یہ ہے کہ وہ بچپن ہی سے نمازآشنااوراس کے عادی بن جائیں۔سن بلوغت کوپہنچنے تک نمازان کے جسم کاحصہ بن جائے۔ امام بغوی رحمہ اللہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ سات سال کی عمر میں بچے کو نماز کا حکم دینے کی حکمت یہ ہے کہ وہ بچپن سے ہی اس کاعادی بن جائے۔‘‘۳۹؎ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بچے کوکسی بات پرلگانااوراس کاعادی بنانانسبتًاآسان ہوتاہے کیونکہ صغرسنی میں اس پرکوئی ایسی عادت غالب نہیں ہوتی جو مطلوبہ چیزکوماننے کی راہ میں رکاوٹ ہو اور نہ کسی بات سے اس کاعام طورپرتعلق ہوتاہے جوحکم کردہ بات کی بجا آوری میں رکاوٹ ہو۔۴۰؎ پٹائی میں اعتدال بچوں کو دس سال کی عمرمیں نمازچھوڑنے پر،مارنے کامعنی یہ بھی نہیں کہ اس کی مارمارکرچمڑی اتاردی جائے بلکہ اتنامارناچاہیے جس سے اس کی اصلاح ممکن ہو۔ ٭ شیخ علقمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’مارنے سے مرادایسی پٹائی ہے جس سے بچہ زخمی نہ ہو اوردوران پٹائی چہرے پرنہ ماراجائے۔‘‘
Flag Counter