اب ہم مذکورہ استدلالی نکات کاتفصیل خاکہ پیش کرتے ہیں تاکہ بحث میں نکھارپیداہوسکے۔ 1۔بچوں کوحکم نمازدینے کاوجوب مذکورہ بالادونوں حدیثوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے سرپرست حضرات کواس بات کاحکم دیاہے کہ وہ بیان کردہ تفصیل کے مطابق انہیں حکم نمازدیں اورایساکرناان پرواجب ہے اس بارے میں بعض علماء امت کے اقوال پیش کیے جارہے ہیں۔ ٭ علامہ مناوی رحمہ اللہ کابیان ہے: جب بچے سات سال کے ہوجائیں توانہیں نمازکاحکم دیں اورجب دس سال کے ہوجائیں توترک نمازپران کی پٹائی کریں ابن عبدالسلام نے کہاکہ(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے)حکم کے مخاطب سرپرست حضرات ہیں بچے نہیں۔۲۸؎ اہل ایمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی تعمیل کے پابندہیں کسی مسلمان کے لئے یہ زیبانہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی تعمیل میں چوں چراں ترددکرے،اللہ عزوجل نے فرمایا: ﴿وَمَاکَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَامُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلَہُ اَمْرًا اَنْ یَکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃمِنْ أَمْرِہِمْ…﴾۲۹؎ ’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔‘‘ ٭ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’بچے کے ولی پرواجب ہے کہ سات سال کی عمرمیں اس کوطہارت اورنماز(کے مسائل)کی تعلیم دے اورنمازاداکرنے کاحکم دے اوردس سال کی عمرمیں اس۔(یعنی نمازکی کوتاہی)پراس کی پٹائی کرے۔‘‘ ۳۰؎ ٭ امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ولی خواہ باپ ہویادادا یاقاضی کی طرف سے مقررکردہ سرپرست،اس پرواجب ہے کہ وہ نمازکاحکم دے اورنمازچھوڑنے پردس سال کی عمرمیں پٹائی کرے۔‘‘ اس کے بعدقرآن وسنت کے کچھ دلائل ذکرکیے ہیں مثلاً ﴿وَاْمُرْاَہْلَکَ بِالصَّلَاۃ﴾۳۱؎ ﴿قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا﴾۳۲؎ صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: ’’کلکم راع وکلکم مسؤول عن رعیتہ…‘‘ ۳۳؎ امام نووی رحمہ اللہ اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ’’ہمارے علماء نے بیان کیاہے کہ ولی بچے کوباجماعت نمازاداکرنے،مسواک کرنے اوردیگردینی اعمال بجالانے کاحکم دے۔اورزنا،لواطت،شراب،جھوٹ اورغیبت کی حرمت سے آگاہ کرے‘‘۔۳۴؎ ٭ شیخ محمدسفارینی کابیان: ’’ کہ(کتب) فقہ میں ہمارے علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ بچے کے ولی کی ذمہ داری ہے کہ وہ سات سال کی عمر میں |