کے بول بول رہی ہیں جو مکّار اور عیّار تھا جس نے ہندوستان پر مسلمانوں کے نہ صرف اقتدار کو چھینا بلکہ مسلم حکمرانوں کی آزادی کو بھی سلب کیا ،مسلمانوں کی شناخت کو بھی چھیننے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا یا اور اسلامی ثقافت کو بھی اپنی طاقت کے زور پر ملیامیٹ کیا عربی زبان کو ختم کیا فارسی کو ختم کیا جن مسلمانوں نے جذبہ حریت کے تحت انگریزوں کے اس اقدام کو روکنے کی کوشش کی انھیں چوکوں اور چوراہیوں پر سر عام پھانسیوں پر لٹکا کر دہشت گردی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے باوجود بھی وہ اپنے آپ کو متمدّن اور مہذب گردانتے ہیں اور اپنے دفاع میں لڑنے والے کو اپنے ملک اورآزادی کی خاطر لڑنے والوں کو دہشت گرد اور باغی کہتے ہیں۔ یہ عجیب انگریزی ڈکشنری ہے جس میں لفظ کا معنیٰ کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے (یعنی جس میں قاتل منصف بھی ہوتا ہے اور دہشت گرد مہذب ہوتا ہے) جبکہ مسلمانوں نے تو حالتِ جنگ میں بھی غلبہ پانے کے باوجو د مغلوب قوموں کے ساتھ عدل و احسان اور رواداری کے اعلیٰ نقوش چھوڑےہیں۔ الحرب العادلۃ کے زیر عنوان محمودشیت خطاب نے اپنی کتاب ’’ بین العقیدۃ والقیادۃ‘‘ الطبعۃ الثالثہ 1983 م میں ص 106 پر لکھا ہے ’’وحرّم الاسلام قتل الشیخ الکبیر والعاجز والمرأۃو الصبی ورجل الدّین المنقطع للعبادۃ والفلاح الذی لم یشترک فی القتال‘‘ پھر اس نے ہمارے ناپ تول کے پیمانے بدلے اس نے ہماری کرنسی بدلی اس نے ہمارے مِیل کو اپنے کلومیٹر سے تبدیل کیا ، اس نے ہمارالباس بدلا زبان بدلی اور ہمارے بچّے ڈیڈی ،پپّا ، ممّا اور کزن بولنے لگے۔ ہائے افسوس! ہماری ثقافت میں کئی رنگ درآئے ہیں ویسے ہی جیسے اردو زبان میں، ترکی ، ہندی ، پنجابی، فارسی اور انگریزی زبان کے الفاظ جمع ہو گئے ہیں اسی طرح مسلمانوں کی تہذیب میں بھی کئی تہذیبیں آکر شامل ہوگئیں ۔ شاید ان بدلتے ہوئے حالات کو دیکھ کر علامہ اقبال نے یہ پیغام دیا تھا۔ بتان ِ رنگ و بُو کو توڑ کر ملّت میں گم ہو جا نہ تو رانی رہے باقی یہ ایرانی نہ افغانی |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |