اس کے علاوہ قہقہہ لگانا یہاں تک کہ کھل کھلاکر ہنسنا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (جو بالیقین ایمان والوں کے لیے ہر عمل میں بہترین اسوہ ہیں) سے ثابت نہیں،بلکہ آپ خوشی کے مواقع پر صرف زیر لب مسکرایا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طور پر کھل کھلاکر ہنستے ہوئے کہ آپ کے دہن مبارک کا اندرونی حصہ نظر آجائے، کبھی نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف تبسم فرمایا کرتے تھے ‘‘۔ معلوم ہوا کہ اگر سلسلہٴ کلام میں کوئی تعجب خیز، حیرت انگیز یا مضحکہ خیز بات زیر تذکرہ آجائے؛ تو ان پر ہنسنے اور مسکرانے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ایسے مواقع پر ہنسنا اور مسکرانا چاہیے،تاکہ دل کا بوجھ ہلکا اور غبار کم ہو اور موجودہ زمانے کی تحقیق کے مطابق صحت، مستعدی اور نشاط میں اضافہ ہو، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ہنسنا اور مسکرانا غافلین کا سا نہ ہو،اس لیے کہ اس طرح کا ہنسنا دلوں کو مردہ کردیتا ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی ہنسا کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں! بیشک! وہ ہنسنے کے موقع پر ہنستے بھی تھے، لیکن اس وقت بھی ان کے قلوب میں ایمان پہاڑ سے زیادہ عظیم ہوتا تھا۔ لہٰذا موجودہ دور کے ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق عمل کرتے ہوئے بہ تکلف قہقہے لگانے کی مجلس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے بلکہ بے تکلف فطری انداز میں جس قدر انسان ہنس لے، وہی اس کی صحت وتندرستی کے لیے کافی ہے۔ اس لیے کہ زیادہ ہنسنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق صحت وتندرستی کا سبب نہیں بلکہ دلوں کے مردہ ہونے کا سبب ہے۔ اگر مزاح کے پہلوؤں کی حامل، مفید امور پر مشتمل کوئی کہانی ہو، تو اسے افادیاتی نقطۂ نظر سے انگیز کیا جاسکتا ہے۔ ایک باررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنھاکو عرب کی تیرہ عورتوں اور ان کے شوہروں کا قصہ سنایا جو’’حدیثِ امّ ِذرع‘‘ کے نام سے حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے۔ لطیفہ گوئی اور مزاح کو ذریعہٴ معاش بنانا: کبھی کبھار لطیفہ کہہ دینے یا مزاح اور تفریح کرلینے کی تو گنجائش ہے، لیکن مستقل لطیفہ گوئی کرنا اور اس کو ذریعہٴ معاش بنالینا، یہ اس مقصد حیات کے برخلاف ہے، جو اسلام افراد اورمعاشرے میں پیدا کرنا چاہتا ہے اور مستقل لطیفہ گوئی اور مزاح وتفریح میں مشغول رہنا انسان کو فکرِآخرت، ذکر اللہ، عبادت اور تلاوت قرآن سے غافل کردیتا ہے۔ زیادہ ہنسنے |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |