اس لئےہربہن کو چاہئے تو یہ کہ وہ چہرے کو سب سے پہلے چھپائے۔وقت کے گزر نے اور جدید ترقی یافتہ دور کی آمد نے شرعی پر دے کے بھی جدید اور نت نئےاسلوب اور ڈھنگ متعارف کروائے ہیں۔ ایک گمراہ عورت کا پلکنگ کرکے، بھنویں بنا کر،کاجل و سرمہ لگا کر ، پھر ابروپر مختلف شیڈز لگا کر، آنکھوں میں ڈیلوں پر سرخ ڈور ے بنا کر‘ تھریڈنگ کے لوازمات اپنا کر، یہ سارے آنکھوں کی تزئین و آرائش اور حسن و جمال کو چار چاند لگا نے والے جتن کر کے گھرسے باہر نکلنا ۔۔۔۔۔اور پھر چاروں طرف آنکھیں گھما گھما کر ۔۔۔۔۔۔ مٹکامٹکا کر د یکھنا ۔۔۔۔ مستی اورخر مستی میں ہنس ہنس کر غیر محرموں دکاندارو ں وغیرہ سےباتیں کرنا۔۔۔۔۔ اور پھر فتنوں کےآتش فشاں پھٹا کر واپس آ نا اور یہ دعویٰ کرنا کہ’’۔۔۔۔۔ میں تو مکمل پردہ میں ہوں‘‘ کیا ایسی عورت کو مندرجہ بالالوازمات یا اس سے کچھ کم کو اپنا نے والی عورت کو ہم’’ پردہ دار‘‘کہہ سکتے ہیں ؟ یہ نادان فتنے کی جڑ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ بننے سنورنے کے اتنے مرحلے طے کرنے کے بعد ہی کیوںبازار جاتی ہیں ـ؟ عورت تو ایسے تباہ کن لوازم کے بغیر بھی مکمل فتنہ ہے۔ ایسی عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زانیہ کہا ہے۔ آپ نے تین دفعہ فرمایا :جو عورت( و و سروں تک پہنچنے والی ) خوشبو لگا کر بازار سے یا چوک سے گزرتی ہے وہ زانیہ ہے،زانیہ ہے، زانیہ ہے۔ لفظ ’’عورت‘‘کے معنی پر کبھی غور کیا ہے آپ نے ؟ اس کا معنی ہے ایسی خاتون جس کے جسم کا کوئی بھی حصہ کوئی غیر محرم مرد نہ دیکھ سکے‘حتیٰ کہ اس کےناخن بھی، وہاں کا بھی پردہ کرے چہ جائیکہ وہ پورا چہرہ ہی ننگا لئے پھرے یا کچھ جاذب نظر اور پر کشش حصہ بنا سنوار کر اس کی نمائش کرتی پھرے اور فتنے کے دروازے کھولتی پھرے۔ نگاہوں کےفتنے سے کون واقف نہیں ؟نگاہوں کے تصادم سے ہی تو بہنوں کی بد نامی ہوتی ہے۔ نا کامی ہو تی ہے۔ بے باک اور عریاں نگاہوں سے شیطان تیر کا کام لیتا ہے۔ برق شرربار کا کام لیتاہے، خنجرپیکار کا کام لیتا ہے۔ نظر کا تیر جب کمان سے نکلتا ہے تو جگر کے پار ہو جاتا ہے، آدمی کو شیطان ورغلاتا ہے اور وہ اللہ کی نافرمانی کر کے کفر کے ارتکاب تک پہنچ جاتا ہے۔اصل اورشرعی پر دے کے تقاضوں کو پورا کر نے والے یا ان کے قریب ترین لبا س پہننےسے آج کل نفرت کی جانے لگی ہے۔ جدید دور کے تقاضے بھی جدید ہی سمجھے جانے لگےہیں۔ ٹوپی برقعہ یا دیگر تسلی بخش حجاب کے لوازمات کو اپنا نے وا لوں کو بنیاد پرست، رجعت پسند،جاہل اور پسماندہ ذہنوں اورعملوں کے مالک سمجھا جاتا ہے اور انہیں حقیر جا نا جا تا ہے۔سر پر علامتی دوپٹہ رکھ کر چہرہ اس لئےننگا رکھا جا تا ہے کہ بقول بعض الناس اس میں خاتون محترم با وقار،مہذب، سلیقہ شعاریافتہ اور’’ اچھی‘‘ نظر آتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ توانا،صحت مند ا ور جو ان نظر آتی ہے۔ میں نے ایک دفعہ اپنی ایک عزیزہ کو کہا کہ آپ ٹوپی برقعہ اوڑھ کر گھر سے باہر جا یا کریں۔ یہ آپ کیلئےزیادہ بہتر اور ساتر ہو گا۔ وہ تڑاخ سے بولی: میں کوئی بوڑھی ہو گئی ہوں جو قبر نما ٹوپی برقعہ پہن کر کار ٹون بن جاؤں۔ میں نے فوراً |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |