ہر انسان کو اپنے ننھیال اور دودھیال سے جبلی طور پر محبت ہوتی ہے۔ ایسے ہی مجھے بھی چک نمبر143گ ب(تحصیل سمندری) سے اور اس کے باسیوں سے بہت محبت ہے، کیونکہ یہ میرا ننھیال ہے۔ بچپن میں سمندری شہر سے اس گاؤں کےــ‘ سائیکل پر ہفتہ میں دوچکر تو لازمی لگتے تھے۔ کبھی کبھی ڈاٹسن ڈالے پر بھی جا نا پڑتا تھا۔ میں تھوڑی دیرگاؤں میں ٹھہر تا اور نانی جان سے مل کر واپس سمندری آ جا تا۔ ایک دفعہ ایسے ہی ڈالے میں بیٹھا‘ واپس آ رہا تھا‘ راستہ میں ایک بے پردہ خاتون سوار ہوئیں۔ ابھی مزید تھوڑا سا سفر کیا تھا کہ ایک لڑکا بھی سواریوں کے ساتھ گاڑی کے پیچھے لٹک گیا۔ ہر سواری کو اپنے سٹاپ نہ گزرجانے کا خوف تھا اور وہ کنڈیکٹر کو اپنا سٹاپ یاد دلا رہے تھے کہ کہیں بھول کر گزار نہ دینا اورہمیں پھر پیچھے کی طرف اپنی منزل تک پہنچنے کیلئے پیدل سفر کرنا پڑے۔ وہ لڑ کا مسلسل ٹکٹکی باندھ کر اس خاتون کو بٹر بٹر اور ٹکر ٹکر دیکھے جا ربا تھا‘ جو ایک لائن میں اپنی سیٹ پر برقعہ پہنےبر اجمان تھی۔ عورت حیران ہو کر دیکھ رہی تھی اور شرمندہ ہو کر چھوئی موئی بنتی چلی جا رہی تھی کہ بد معاش د یدے پھاڑپھارُ کر مجھے کیوں دیکھ رہا ہے۔ لڑ کا تھا کہ اس کے کبھی کبھار غیرت اورحیرت سے اس دیکھنے کو بھی کچھ اور مطلب و معانی پہنا رہا تھا۔ وہ اس کے دیکھنے پر ہلکا سامسکرا دیتا اور کبھی کبھار محبت بھرے نغمے اور اشعار اپنی ہی ترنگ میں آہستہ آہستہ گنگنانے لگتا۔ باقی سوار یاں یہ سب تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں مگر مسلسل خاموش تھیں۔ کچھ لوگ آپس میں دبے دبے لفظوں میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ یہ لڑکا تو اس خاتون کے پیچھے ہاتھ دھو کر ہی پڑ گیا ہے۔ جب ایک سیٹ خالی ہوئی تو لڑ کا فورا ًکو اندر لپکا اور سیٹ پربیٹھ کر اپنے سامنے گھور نے لگا۔ کنڈیکٹر نے یہ منظر دیکھ کر اس سے پوچھا: جو ان کہاں جاؤگے‘ کون سے سٹاپ پر اتاروں تجھے؟ نو جوان نے بغیر عورت کے چہرے سے نظریں ہٹائےکہا جب میر اسٹاپ آ جائے گا تو تجھے بتا دوں گا۔ اب وہ اللہ کی بندی خاتون شر مند گی پریشانی اور پشیمانی کی بنا پر پسینے میں بھیگی چلی جا رہی تھی۔یہ مکر وہ کھیل و تماشا چلتا رہا حتیٰ کہ گو جر ہ موڑکا سٹاپ آیا اور وہ عورت تیزی سے اٹھی تا کہ اپنے سٹاپ پر اتر جائے۔ یہ صورتحال دیکھ کر یہ نوجوان بھی اس کے پیچھے نیچے اتر گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟اس لئےکہ خالق کائنات نے عورت کوعورت بننے کا حکم دیا ہے، عورت کا معنی ہی ایسی چیز ہے جو تمام اطراف سے مکمل طور پرڈھانپی گئی ہو اور چھپائی گئی ہو۔ جب چھپائی جا نے والی چیز کو ظاہر کر دیا جائے اور وہ ظاہرکرنے والی بذات خود عورت ہی ہوتو پھر نتیجے تو ایسے ہی نکلیں گے۔اسلام نے عورت کو پردہ کا حکم دیا ہے ۔ اسے حکم دیا ہے کہ وہ اپنی زینت کو چھپا کررکھے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چہرہ عورت کے زینت والے مقامات میں سے سب سے زیادہ اہم ہے۔ |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |