"واللائی لم یحضن:وقال قتادۃ : اللائی یئسن الکبار واللائی لم یحضن الصغار"[1] ’’وہ عورتیں جو ناامید ہو چکی ہیں وہ بڑی عمر کی بوڑھی عورتیں ہیں اور جن عورتوں کو حیض نہیں آیا ہے وہ چھوٹی کم سن لڑکیاں ہیں‘‘ معلوم ہوا کہ شیعہ عالم کے نزدیک بھی چھوٹی لڑکی (کم سن) کا نکاح جائز ہے۔ دوسری دلیل [وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ][النساء: 3] ترجمہ: ’’اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے توان عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو‘‘ سورۃ النساء میں ہی دوسری جگہ پر ہے: [وَيَسْتَفْتُوْنَكَ فِي النِّسَاۗءِ ۭ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ ۙ وَمَا يُتْلٰي عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ فِيْ يَتٰمَي النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا تُؤْتُوْنَھُنَّ مَا كُتِبَ لَھُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْھُنَّ][النساء: 127] ترجمہ: ’’وہ آپ سے عورتوں کے بارے حکم دریافت کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجیئےکہ خود اللہ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے اور قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں جنہیں ان کا مقرر حق مہر تم نہیں دیتے اور ان کو اپنے نکاح میں لانے کی رغبت رکھتے ہو ‘‘ مذکورہ بالا دونوں آیات یتیم لڑکی کے نکاح کے جواز پر دلالت کرتی ہیں جو ابھی بالغ نہیں ہوئی ہو۔ دلیل وہ حدیث ہے جو صحیح بخاری میں موجود ہے۔ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ اے ام المؤمنین ! [وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى ] سے [ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ] تک کیا بیان ہوا ہے؟ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ اے بھانجے! اس آیت میں اس یتیم لڑکی کا ذکر ہے جو اپنے ولی کے زیرِ پرورش ہو اور ولی لڑکی کی خوبصورتی اور مال کی وجہ سے اس کی طرف رغبت رکھتا ہو اور اس کا |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |