حق مہر کم کرکے نکاح کرنا چاہتا ہو تو ایسے لوگوں کو ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے سوائے اس بات کے کہ وہ لڑکیوں کے حق مہر کے معاملہ میں انصاف سے کام لیں اور اگر انصاف نہ کر سکیں تو ان یتیم لڑکیوں کو چھوڑ کر دوسری عورتوں سے نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: لوگوں نے بعد میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اس آیت میں یہ حکم صادر فرمایا کہ جب یتیم لڑکیا ں مال ودولت اور حسن و جمال والی ہوتی ہیں تو مہر میں کمی کرکے ان سےنکاح کرنا پسند کرتے ہیں اور اگر لڑکی مال ودولت والی نہیں ہے تو اس کو چھوڑ کر دوسری عورتوں سے نکاح کرتے ہیں ، یہ کیسی بات ہوئی؟ ان کو چاہیے کہ جب مال و دولت اور حسن و جمال کے نہ ہونے پران لڑکیوں کو چھوڑ دیتے ہیں اسی طرح اس وقت بھی ان کو چھوڑ دیں جب وہ مالدار اور خوبصورت ہوں ، البتہ اگر انصاف کریں اور پورا حق مہر ادا کریں تو پھر نکاح کرسکتے ہیں۔[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: "فیہ دلالۃ علی تزویج الولی غیر الاب التی دون البلوغ بکرا کانت او ثیبا، لان حقیقۃ الیتیمۃ من کانت دون البلوغ ولا اب لھا ۔ وقد اذن فی تزویجھا بشرط ان لا یبخس من صداقھا فیحتاج من منع ذالک الی دلیل قوی "[2] ’’اس حدیث سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ اگر لڑکی کا ولی والد کے علاوہ کوئی اور ہے تو وہ نابالغ لڑکی کا نکاح کروا سکتا ہے چاہے لڑکی کنواری ہو یا ثیبہ (جس کا خاوند فوت ہو چکا ہو یا مطلقہ ہو، مطلب کہ وہ اب کنواری نہ ہو)کیونکہ حقیقتاً یتیم وہی لڑکی ہے جو نابالغ ہو اور اس کا والد بھی نہ ہو، ایسی لڑکی سے شادی کی، اس صورت میں اجازت دی گئی ہے کہ حق مہر میں سے کچھ بھی کم نہ کیا جائے ، جو بھی اس شادی سے منع کرتا ہے اسے اس سے بھی زیادہ مضبوط دلیل پیش کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: "و فیہ جواز تزویج الیتامی قبل البلوغ لانھن بعد البلوغ لا یقال لھن یتیمات |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |