مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ ۙ وَّاڿ لَمْ يَحِضْنَ ]فجعل اڿ لم یحضن عدۃ ثلاثۃ اشھر ولا تکون عدۃ ثلاثۃ اشھر الا من طلاق فی نکاح او فسخ فدل ذالک علی تزوج و تطلق" ترجمہـ:’’چھوٹی لڑکی کے نکاح کے جائز ہونے پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے کہ ’’تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہو گئی ہوں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا ابھی شروع ہی نہ ہوا ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ایسی عورتوں کی عدت تین مہینے مقرر کی ہے جن کو حیض نہ آیا ہو اور تین مہینے عدت صرف طلاق ہونے یا نکاح فسق ہونے کی صورت میں ہوتی ہے۔ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ چھوٹی لڑکی کا نکاح بھی ہو سکتا ہے اور اس کو طلاق بھی دی جا سکتی ہے‘‘۔ [1] علامہ نفراوی مالکی رحمہ اللہ (وفات:1126ھ) لکھتے ہیں: "ان کانت مطلقۃ ممن لم تحض لصغر ولکن مطیقۃ للوطء او کانت کبیرۃ لکن قد یئست من المحیض بان جاوزت السبعین، فثلاثۃ اشھر عدتھا فی حق الحرۃ و مثلھا الامۃ علی المشھور لقولہ تعالیٰ: [وَاڿ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ ۙ وَّاڿ لَمْ يَحِضْنَ ] ای : عدتھن کذالک"[2] ’’اگر مطلقہ عورت ان عورتوں میں سے ہے جن کو کم سنی کی وجہ سے حیض نہیں آیا ہے پر وہ ہم بستر ہونے کی طاقت رکھتی ہے یا بڑی عمر کی ہے اور حیض سے ناامید ہو گئی ہو کیونکہ اس کی عمر ستر برس سے بھی بڑھ گئی ہے تو پھر ایسی صورت میں اس کی عدت تین مہینے ہے پھر چاہے عورت آزاد ہو یا لونڈی ، مشہور مذہب بھی یہی ہے دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے...‘‘ مشہور شیعہ عالم محمد بن حسن الطوسی (وفات:460ھ) اپنی مشہور تفسیر ’’التبیان فی تفسیر القرآن‘‘ میں سورۃ الطلاق کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |