جبکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ طلاق اسی ہی کو دی جاتی ہے جس کا نکاح ہو چکا ہو کیونکہ طلاق بعد کا عمل ہے جبکہ نکاح اس سے پہلے کا۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "فان کانت المطلقۃ لا تحیض لصغر او کبر او خلقۃ ولم تکن حاملا، و کان و قد وطئھا فعدتھا ثلاثۃ اشھر من حین بلوغ الطلاق الیھا او الی اھلھا ان کانت صغیرۃ لقول اللہ تعالیٰ:[ وَاڿ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ ۙ وَّاڿ لَمْ يَحِضْنَ] ’’اگر مطلقہ عورت کو اس کی کم سنی کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو یا اس کی بڑی عمر کی وجہ سے یا کسی پیدائشی نقص کی وجہ سے اور وہ حاملہ بھی نہ ہو اور اس کا خاوند اس کے ساتھ ہمبستر بھی ہوا ہے تو اس صورت میں اس کی عدت تین ماہ ہے جب سے اس کو طلاق دی گئی یا اس کے ورثاء تک (اس کی) طلاق پہنچی پھر چاہے وہ نابالغ لڑکی ہی کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: [وَاڿ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ ۙ وَّاڿ لَمْ يَحِضْنَ ][1] علامہ سرخسی حنفی رحمہ اللہ (وفات: 483ھ) لکھتے ہیں: "بین اللہ تعالیٰ عدۃ الصغیرۃ و سبب العدۃ شرعا ھو النکاح و ذالک دلیل تصور نکاح الصغیرۃ"[2] ’’اللہ تعالیٰ نے چھوٹی لڑکی کی عدت کو واضح طور بیان فرمایا ہے اور عدت کا سبب شرعی نکاح ہوتا ہے (کیونکہ نکاح کے بعد ہی عدت ہوا کرتی ہے جیسے خاوند فوت ہو جائے یا طلاق دے دے) اور یہ بات چھوٹی لڑکی کے نکاح کی دلیل ہے‘‘۔ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ (وفات: 620ھ) لکھتے ہیں: "قد د ل علی جواز تزویج الصغیرۃ قول اللّٰہ تعالیٰ [وَاڿ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |