طلب کرنے والے کو یہ یقین ہوجائے کہ گھر والے نے سنا ہی نہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ مزیدطلب کر لے ۔ 6اجازت لینے کے لئے تعارف کی اہمیت آداب استئذان میں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ آنے والے کو اپنا مناسب تعارف کرانا لازم ہے یعنی جس سے اجازت لی جارہی ہے کم ازکم اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ اجازت طلب کرنے والا کون ہے؟ کچھ لوگ جواب میں کہتے ہیں [ میں ہوں! ] یہ طریقہ نامناسب ہے اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بہت ناگوار گذرااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کراہت کااظہار کیا اور صحابہ کرام نے بھی محسوس کیا اور اسے ذہن نشین کرلیا پھر لوگوں کو اس کی تعلیم بھی دی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک حدیث ذکر فرمائی: سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : " أتيتُ النبيَّ - صلَّى الله عليه وسلَّم - في دَيْنٍ كان على أبي، فدققت الباب فقال: ((مَن ذا؟))، فقلت: أنا، فقال: ((أنا! أنا!))، كأنَّه كَرِهَهَا"۔ [1] ترجمہ : سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااور دروازہ پر دستک دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون ہے ؟ ’’میں نے کہا: ’’میں ہوں ‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں! میں!) جیسے انہیں ناگوار گذرا ہو ۔ مشروع طریقہ یہ ہے کہ جب پوچھا جائے تو جواب میں کہنا چاہئے کہ میں فلاں ہوں اوراپنا نام بتانا چاہئے ، اگر پھر بھی پہچان نہ ہو تو اپنا مناسب تعارف کرانا چاہئے ۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارےاسلاف نے لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاس بات پر کراہت اس لئے ظاہر کی کہ ’’ میں ‘‘ سے کوئی تعارف حاصل نہیں ہوسکتا جب کہ مسئلہ اذن میں تعارف ضروری ہے جو کہ نام سے ہوسکتی ہے کیونکہ نام ہی ایسی معرفت ہے جس سے سوال کی کلفت بھی دور ہوجاتی ہے اور جواب بھی حاصل ہوجاتا ہے جیسا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک بار وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشربہ(پانی پینے کی جگہ) |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |