5 اجازت کتنی بار لینی چاہئے ؟ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتا ہے کہ استئذان تین بار مشروع ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار سعد بن عبادۃ کے گھر تشریف لے گئے اور کہا :(السلام علیکم) اندر سے جواب نہیں ملا تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: (السلام علیکم) اند ر سے پھر جواب نہ ملا تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا جواب نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چل دئے ،جب سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اب سلام نہیں پایا تو آپ سمجھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ گئے ہیں تو سعد بن عبادہ نے ان کا پیچھا کیا اور ان کوجاکر پالیا اور سلام کا جواب دیا اور بتایاکہ ہم چاہ رہے تھے کہ آپ کے سلام کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرلیں جب کہ ہم سن رہے تھے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ تشریف لے آئے ۔ایک روایت میں قیس بن سعد فرماتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے ہلکی آواز میں جواب دیا تو میں نے سوال کیا کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت نہیں دیں گے تو انھوں نے جواب دیا کہ خاموش ہوجاؤ تاکہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سلام کرتے رہیں۔ [1] امام ابن شھاب فرماتے ہیں تین بار سلام کرنا اسی حدیث سے اخذ کیا گیا ہے ۔ ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’الاستئذان ثلاث، فان أذن لك وإلا فارجع‘‘[2] ’’ استئذانتین بار ہوتا ہے اگر تمہارے لئے اجازت دی جائے تو داخل ہوجاؤ ورنہ واپس لوٹ جاؤ‘‘ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "الاستئذان ثلاث لا أحب أن يزيد أحد عليها إلا من علم أنه لم يسمع فلا أرى بأساً أن يزيد إذا استيقن أنه لم يسمع"[3] ترجمہ:تین دفع سے زیادہ اجازت طلب کرنا درست عمل نہیں اور میں اسے پسند نہیں کرتا اگر اذن |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |