سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں انصار کی ایک مجلس میں تھا۔ تو ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے تین بار اجازت ما نگی مگر اجازت نہیں ملی تو میں واپس لوٹ گیا پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تمہیں اندر آنے سے کس چیز نے روکا؟ میں نے کہا کہ میں نے اجازت مانگی لیکن آپ نے اجازت نہ دی اس لئے میں واپس لوٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص تین بار اجازت مانگے اور اس کو اجازت نہ ملے تو اس کو لوٹ جانا چاہئے۔ جناب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تم کو اس پر گواہ پیش کرنا ہوگا اور ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا تم میں سے کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس فرمان کو سنا ہے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ بخدا تیری گواہی کے لئے قوم کا کمسن شخص کھڑا ہوگا۔ راوی کا بیان ہے کہ میں اس وقت سب سے کمسن تھا میں ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کھڑا ہوا اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر دی کہ جی ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے ۔[1] ایک روایت میں الفاظ ہیں یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ أَخَفِيَ هَذَا عَلَيَّ مِنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلْهَانِي الصَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ (يَعْنِي الخُرُوجَ إِلَى تِجَارَة) أَلْهَانِي الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ .[2] ترجمہ: مجھ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بازار میں خرید و فروخت کی وجہ سے پوشیدہ رہی۔ علامہ ابن عاشور رحمہ اللہ کہتے ہیں اس حدیث سے واضح ہوا کہ استئذان میں تین حالات ہوسکتےہیں: اذن [اجازت حاصل ہوجائے] ۔ معذرت کی جائے [منع کردیا جائے] کوئی جواب نہ ملے ( خاموشی ہو ) آیت کریمہ اور حدیث شریف کی روسے پہلی صورت میں داخل ہونا جائز ہے اور دوسری دونوں صورتوں میں واپس لوٹ جانا چاہئے۔[3] |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |