اس آیت مبارکہ میں اس بات کی طرف نشاندہی کی گئی ہے کہ بالفرض آنے والے کو واپس جانے کا کہاجائے تو واپس لوٹ جانا چاہئے اس میں کسی قسم کا کوئی حرج و اثم نہیں ہے مثلا ًاگرگھر والے اندر موجود ہوں اورخود ہی یہ کہیں کہ آپ واپس لوٹ جائیں تو بغیر کسی غم و غصہ کے واپس لوٹ جانا چاہئے یہی نفوس کے لئے اطیب و ازکیٰ ہے اور اس بات پر اپنے دل کو اطمئنان دلانا چاہئے کہ ہر کسی کو اعذار واسرار لاحق ہوسکتے ہیں اور یہ بات جان لینی چاہئے کہ یہ گھر والوں کا حق ہے جو اللہ تعالیٰ نے برقرار رکھا اور اس کی مذمت نہیں فرمائی اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ ﴾ [النور: 28] ترجمہ: اور اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ جایا کرو۔ یہ تمہارے لئے زیاد ہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ["هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ "] سے مراد کہ اس (لوٹ جانے میں ) تمہارے لئے بہتری ہے کہیں تنگ دلی سے اجازت ملے، بہتر ہے کہ خوشی سے تمہیں اجازت دی جائے‘‘۔[1] علامہ ابن عاشور رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’ اس آیت میں صراحتاً حق کی تعلیم دی گئی ہےتاکہ کسی قسم کا ابہام نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی کوئی اذیت کا پہلو باقی رہے اس طرح ملنے والے کو بھی اطمینان رہے گا اگر حق تسلیم کرنے کا رواج عام ہوجائے تو تمام شکوک شبھات اور دلوں کی قدورتیں دور ہوجائیں ‘‘[2] پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے : ’’إذَا استأذنَ أحدُكم ثلاثًا فلم يُؤذَن له، فليَرجِع‘‘[3] ترجمہ:’’ جب تم میں سے کوئی اجازت طلب کرے اور سے اجازت نہ ملے تو تمہیں واپس لوٹ جانا چاہئے‘‘۔ اور جب یقین سے معلوم ہو کہ گھر میں کوئی موجو دہے،مگر جواب نہیں مل رہا تو جواب نہ ملنے پر بھی واپس لوٹ جانا چاہئے۔اس بارے میں صحیح بخاری میں حدیث ہے : |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |