Maktaba Wahhabi

105 - 434
جاہلیت کا بہادر اسلام میں بزدلی کی بات کرتا ہے۔ جاؤ! ابوبکر کے ہوتے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ میں زندہ ہوں۔ میرے ہوتے ہوئے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں تبدیلی ہو جائے ؟ جاؤ لشکر کشی کرو۔ خالد ابن ولید کو کہا مجھے تب تک چین نہیں آسکتا جب تک کہ ختم نبوت پہ ہاتھ ڈالنے والے مسیلمہ کذاب کی لاش کو کتوں کے سامنے نہ ڈالا جائے۔ جاؤ اس کی گردن کو کاٹ کے لاؤ تاکہ ابوبکر کا کلیجہ ٹھنڈا ہو کہ دنیا کا کوئی شخص میرے آقا کی نبوت پہ ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ یہ ابوبکر تھا اور ایک برس نہ گزرا تھا ابھی ان معرکوں سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ پتہ چلا کوہستان کے قبائل مرتد ہو گئے اور مدینے پہ چڑھائی کر دی۔ ابوبکر مسکرائے صحابہ پریشان ۔ ابوبکر کیا ہو گا ؟ فرمایا مدینے تک پہنچنے نہیں دیا جائے گا ان کی بستی پہ حملہ ہو گا۔ میں خود لشکر کی قیادت کروں گا۔ اور جس دن صدیق کی نعش مبارک اس کے گھر میں رکھی ہوئی تھی تو فاروق جیسا جری انسان روتا ہوا آیا ابوبکر کے چہرے سے کفن کی چادر ہٹائی اور کہنے لگے جب بڑے بڑے بہادر بزدل ہو گئے تھے تو تو کمزور بہادروں کا بہادر بن کے اٹھا تھا اور اس لئے اٹھا تھا کہ تونے اس کے ساتھ تربیت پائی ہے کہ چشم فلک نے جس سے بہادر انسان کا چہرہ کبھی دیکھا ہی نہیں۔ تونے اس کی تربیت حاصل کی ہے۔ تیرے بعد کون ہے جو فتنوں کا مقابلہ اس بے جگری سے کرے جس بے جگری سے تونے کیا؟ یہ وہی متفقہ علیہ شخصیت تھی کہ ثقیفہ بنی ساعدہ میں جب اس کا نام امامت کے لئے پیش کیا گیا تو علی المرتضی نے کہا شیعہ کتاب غارات ثقفی کا حوالہ‘ لوگ ابوبکر کا نام آنے کے بعد اس طرح اس پہ ٹوٹ پڑے جس طرح شہد کی مکھیاں پھول پہ ٹوٹ پڑتی ہیں۔ دیوانہ وار لپکے یا فرمایا اس طرح لپکے جس طرح پروانے شمع پہ لپکتے ہیں۔ حتی کہ وہ لوگ جو حضرت سعد ابن عبادہ کو اپنا امام بنانے کے لئے آئے تھے وہ بھی اس طرح لپکتے ہوئے ابوبکر کی طرف آئے کہ سعد ابن عبادہ ان کے پیروں کے نیچے روندے گئے۔ کسی کو ابو بکر کے ہاتھ کے بڑھ جانے کے بعد خبر ہی نہ رہی۔
Flag Counter