ایک سنت متروک ہوچکی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مؤذن اوپرچڑھ کراذان دیتاتھایہی سبب ہے کہ صحیح حدیث میں ابن ام مکتوم اوربلال رضی اللہ عنہما کی اذان کے متعلق اس طرح ہے کہ:
((وماكان بين اذان كل منهم الاان يرقٰي هذاوينزل هذا.))
(اوکماقال مسند احمد)
یہ الفاظ اس بات پردلالت کرتے ہیں کہ اذان اوپرچڑھ کردی جاتی تھی،اس لیے عالم اسلام میں اذان کے لیے (اونچی جگہ)بنائی جاتی تھی مگرآج کل چندجگہوں کے علاوہ ہرمسجدمیں اسپیکرکےسامنےاذان دی جاتی ہے۔لیکن اس پر توعلامہ صاحب بھی اعتراض نہیں اٹھاتاکہ اس کام کی وجہ سے مبارک زمانہ کی سنت متروک ہوگئی ہے۔ لہٰذا یہ بدعت ہے تسبیح کےلیے توفرماتے ہیں کہ اس کی وجہ سے سیدھے ہاتھ پر پڑھنے والی سنت متروک ہوجائے گی لیکن حقیقت قطعاًایسے نہیں ہے۔بلکہ تسبیح پرپڑھنے والے بھی کافی ذکراذکارہاتھوں کی انگلیوں پربھی پڑھتے ہیں لیکن زیادہ وظائف پڑھتے وقت تسبیح کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ لہٰذا یہ سنت بالکلیہ متروک نہیں ہوئی۔
لیکن الٰہ مکبرالصوت نے تواس مشہورسنت کا بالکل خاتمہ کردیا ہے،پھراس کے خلاف کیوں آوازنہیں اٹھائی جاتی۔ اسی طرح تبلیغی اجتماعات کوبھی دینی حیثیت حاصل ہے اس میں الٰہ مکبرالصوت کواستعمال میں نہیں لانا چاہئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کےموقع پراتنے صحابہ تھے کہ حضرت جابررضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق ذوالحلیفہ میں جب آپ نے دیکھا تولوگ ہی لوگ نظرآئے لوگوں کے اتنے جم غفیرکوآپ نے وعظ ونصیحت بھی کیااوراس کے سننے کا کوئی نہ کوئی انتظام ضرورکیا ہوگااورظاہرہے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےاتنے صحابہ ہوں گے کہ جتنے ہمارے آج کل کےاجتماعات میں قطعاً نہیں ہوتے ہوں گے۔مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الٰہ مکبرالصوت استعمال نہیں کیا۔پھرکیا ہم بھی ایسے موقع پروہ طریقہ اختیارکریں۔۔خواہ مخواہ لاوڈاسپیکرکی بدعت کو اختیارکررہے ہیں۔
|