عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ والی وہ حدیث دلالت کرتی ہے،جس میں ان کا بیان ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی ایک نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قراء ت دشوار ہو گئی۔سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:تم اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ ہم نے عرض کی:ہاں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!اللہ کی قسم(ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑھتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سورت فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو،کیوں کہ جس شخص نے سورت فاتحہ نہیں پڑھی،اس کی تو نماز ہی نہیں ہوتی۔‘‘
یہ حدیث ابو داود،ترمذی،نسائی،معجم طبرانی صغیر اور دیگر کتبِ حدیث میں حسن درجے کی سند سے مروی ہے۔[1]
یہ حدیث تفصیلی تخریج کے ساتھ ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں۔
’’التعلیق الممجد علی موطأ الإمام محمد‘‘(ص:۹۹) اور بعض طبعات کے(ص:۱۰۱)(طبع یوسفی) میں علامہ لکھنوی لکھتے ہیں:’’کسی مرفوع صحیح حدیث میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کی ممانعت ثابت نہیں اور جو بھی مرفوع احادیث پیش کرتے ہیں،وہ یا تو صحیح نہیں یا لا اصل ہیں۔‘‘[2]
تھوڑا آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کی احادیث کے معارض و مخالف کوئی مرفوع حدیث نہیں پائی جاتی۔‘‘
پھر آگے خلاصہ ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بالجملہ امام کے پیچھے سورت فاتحہ
|