کچھ تفصیل یہ ہے کہ فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن منیر سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے ایک فعل،یعنی حصولِ جماعت کی حرص و کوشش کو درست قرار دیا ہے اور یہ عام جہت ہے،جب کہ دوسری خاص جہت سے غیر درست بھی فرمایا اور اس سے روکا۔[1]
ممانعت کس بات کی؟
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سی غیر درست بات ہوگئی تھی،جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں روکا تھا:
1۔ اس سلسلے میں پہلی بات الفاظِ حدیث سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ دوڑ کر آئے اور نماز میں شامل ہوئے تھے۔صحیح ابن السکن میں دوڑنے کے واضح الفاظ بھی ہیں،جن میں حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
((فَانْطَلَقْتُ اَسْعٰی حَتّٰی دَخَلْتُ الصَّفَّ)) [2]
’’میں دوڑتا ہوا صف میں داخل ہوا۔‘‘
اور یہ دوڑکر آنا غلط کام ہے،کیوں کہ صحیح بخاری و مسلم اور ’’جزء القراءة‘‘میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
((إِذَا سَمِعْتُمْ الْاِقَامَۃَ فَامْشُوْا إِلَی الصَّلَاۃِ وَعَلَیْکُمُ السَّکِیْنَۃَ وَ الْوَقَارَ وَلَا تُسْرِعُوْا فَمَا أَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوْا فَمَا فَاتَکُمْ فَاَتِمُّوْا)) [3]
’’جب اقامت کی آواز سنو تو نماز کی طرف چل دو اور سکون و وقار سے چلو،بھاگم بھاگ نہ آؤ۔جو پا لو وہ پڑھ لو اور جو چھوٹ جائے وہ اٹھ کر
|