اس میں انھوں نے حنفی ہونے کے باوجود یہ فیصلہ دیا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کے لیے سری نمازوں میں الحمد للّٰہ پڑھنا مستحسن و مستحب ہے اور جہری یا بلند آواز سے قراء ت کی جانے والی نمازوں میں بھی امام کے سکتات میں مقتدی سورت فاتحہ پڑھ سکتا ہے۔چنانچہ وہ اپنی کتاب’’إمام الکلام‘‘(ص:۱۵۶) اور بعض طبعات(ص:۲۱۶) میں لکھتے ہیں کہ اب نہایت اچھی طرح ظاہر ہوگیا ہے کہ جن اقوال کو ہمارے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے،ان میں سب سے زیادہ قوی مسلک و قول یہ ہے کہ سری نمازوں میں(جن میں قراء ت بلا آواز کی جاتی ہے) امام کے پیچھے الحمد للّٰہ پڑھنا مستحسن ہے،جیسا کہ امام محمد رحمہ اللہ اور دیگر فقہائے زمانہ کی ایک جماعت سے مروی ہے۔
مجھے امیدِ واثق ہے کہ جب امام محمد رحمہ اللہ سری نمازوں میں سورت فاتحہ پڑھنے کو مستحسن کہتے ہیں تو لازماً جہری یعنی بلند آواز کی قراء ت والی نمازوں میں بھی امام کے سکتات میں سورت فاتحہ پڑھنے کو جائز سمجھتے ہوں گے،کیوں کہ جہری میں سکتاتِ امام میں قراء ت کرنے اور سری نمازوں میں قراء ت کرنے کے مابین کوئی فرق نہیں اور محدثین کی ایک جماعت کا بھی یہی مسلک ہے۔اللہ ان سب کو روزِ قیامت جزا عطا فرمائے۔[1]
نیز’’عمدۃ الرعایۃ حاشیۃ شرح الوقایۃ‘‘(۱؍۱۷۴) میں لکھتے ہیں کہ مقتدی کے لیے سری نمازوں میں اور جہری نمازوں کے سکتات میں(یعنی جب امام ایک ایک آیت پڑھ کر خاموشی اختیار کرتا ہے ان میں) سورت فاتحہ پڑھنے پر حضرت
|