مولانا ظفر احمد عثمانی،مولانا عبدالحی،ملا جیون،علامہ انور شاہ اور مولانا بنوری کے نام قابلِ ذکر ہیں،جو صاحبِ ہدایہ کی نقل کو صحیح قرار دیتے ہیں۔
رہی یہ بات کہ امام محمد رحمہ اللہ کی کتاب موطا اور الآثارمیں وارد اقوال اس کے خلاف ہیں تو یہ بات بھی صحیح نہیں ہے،کیوں کہ ان کتب میں ان کے اقوال اس بات کا پتا تو ہرگز نہیں دیتے کہ قراء ت مکروہ وممنوع ہے،بلکہ محض غیر اولیٰ ہونے پر دلالت کرتے ہیں،چنانچہ علامہ کشمیری سے نقل کرتے ہوئے علامہ بنوری نے’’معارف السنن‘‘(۳؍۱۸۸) میں لکھا ہے:
’’وَکَلَامُ مُحَمَّدٍ فِيْ اْلآثَارِ وَ الْمُوَطَّأ یَدُلُّ عَلیٰ عَدْمِ قِرَائَ تِہَا وَکَوْنِہَا غَیْرَ مَرْضِیَّۃٍ وَ لَا یَدُلُّ عَلیٰ الْکِرَاہَۃِ وَاِنَّمَا یَدُلُّ عَلیٰ أَنَّ الْأَوْلَیٰ أَنْ لَّا یَقْرَأ‘‘[1]
علامہ کشمیری نے یہی بات’’العرف الشذي‘‘(ص:۱۴۸) میں بھی لکھی ہے۔
معلوم ہوا کہ امام محمد کے سری نمازوں میں قراء ت کو مستحسن قرار دینے والے قول کو موطا و الآثار میں واردہ اقوال کے خلاف قرار دینا ہر گز صحیح نہیں ہے،جب کہ سری نمازوں میں تو ممانعت کا حکم قطعاً ثابت نہیں ہے،جیسا کہ علامہ انور شاہ فیض الباری میں فرماتے ہیں:
’’لَمْ أرَفِيْ نَقْلٍ عَنِ الْاِمَامِ أَنَّ القراءة فِيْلسِّرِّیَّۃِ لَا تَجُوْزُ‘‘[2]
’’میں نے کسی جگہ یہ لکھا ہوا نہیں دیکھا کہ سری نمازوں میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے قراء تِ فاتحہ کو ناجائز کہا ہے۔‘‘
|