Maktaba Wahhabi

235 - 236
میں ثقہ و مضبوط ہیں۔‘‘ علامہ کشمیری ہی کی املائی تقریر فیض الباری(۲؍۲۷۲) میں تو بڑے فیصلہ کن انداز سے امام محمد کے قول کو شاذ کہنے والے شیخ ابن ہمام کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’وَالصَّوَابُ مَا ذَکَرَہٗ صَاحِبُ الْہِدَایَۃِ فَاِنَّ تَنَاقُلَ الْمَشَائِخِ بِرِوَایَۃٍ یَکْفِيْ ثُبُوْتُہَا وَلَا یُشْتَرَطُ أَنْ تَکُوْنَ مَکْتُوْبَۃً فِيْ الْأَوْرَاقِ أَیْضاً فَقَدْ تَکُوْنُ رِوَایَۃٌ عَنْ إِمَامٍ،وَ تُنْقَلُ عَلیٰ الْأَلْسِنَۃِ وَلَا تُوْجَدُ فِي الْکُتُبِ‘‘[1] ’’جو بات(قراء تِ فاتحہ کا استحسان و استحباب) صاحبِ ہدایہ نے ذکر کی ہے،صحیح و درست ہے،مشایخ کا اپنی کتابوں میں اس روایت کو نقل کرنا ہی ثبوت کے لیے کافی ہے،اور اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ یہ بات اوراق میں مکتوب ہو،کیوں کہ بعض دفعہ کوئی روایت کسی امام سے زبانی طور پر تو منقول ہوتی ہے،لیکن کتب میں موجود نہیں ہوتی۔‘‘ جب کہ شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے الفاظ سے پتا چلتا ہے کہ یہ قول تو مبسوط میں مذکور بھی ہے،جسے انھوں نے خود دیکھا ہے،لہٰذا صحیح تر بات یہی ہے کہ ان کا قول شاذ نہیں،بلکہ ثابت ہے اور کتاب الآثار یا موطا میں واردہ اقوال کے خلاف بھی نہیں ہے۔ لیکن مانعین ان کے اس قول کو ان کی کتاب موطا اور کتاب الآثار(کتاب الحجۃ) وغیرہ میں واردہ اقوال کے خلاف شمار کرتے یا کراتے ہوئے شاذ کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صاحبِ ہدایہ سے نقل میں تسامح ہوا ہے،جب کہ کئی حوالوں سے ہم ثابت کر آئے ہیں کہ صاحبِ ہدایہ سے تسامح نہیں ہوا،بلکہ ان کی نقل صحیح ہے،خصوصاً
Flag Counter