میں سے صرف تین ایامِ حج میں رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، بقیہ سات روزے گھر پلٹنے کے بعد رکھے۔
ایامِ حج میں تین روزے رکھنے کے متعلق امام بخاری نے حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت نقل کی ہے، کہ ان دونوں نے فرمایا:
’’لَمْ یُرْخَّصْ فِيْ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ أَنْ یُصَمْنَ إِلَّا لِمَنْ لَمْ یَجِدِ الْہَدْيَ۔‘‘[1]
’’قربانی نہ پانے والے شخص کے سوا کسی کو ایام تشریق میں روزے رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔‘‘
امام بخاری نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک اور روایت بھی نقل کی ہے، کہ انہوں نے فرمایا:
’’اَلصِّیَامُ لِمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ إِلٰی یَوْمِ عَرَفَۃَ، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ ہَدْیًا، وَلَمْ یَصُمْ صَامَ أَیَّامَ مِنٰی۔‘‘
’’عمرے کا حج کے ساتھ فائدہ اٹھانے والے شخص[2] کو یومِ عرفہ تک روزے رکھنے ہیں۔ اگر اس نے قربانی نہ پانے کے باوجود (اس وقت تک) روزے نہ رکھے ہوں، تو منیٰ کے دنوں میں روزے رکھے۔‘‘[3]
د: تین روزوں کے متعلق علماء نے ایک اور آسانی یہ بیان کی ہے، کہ اگر کوئی شخص شرعی عذر کی بنا پر انہیں ایام حج میں نہ رکھ سکے، تو وطن واپس آنے پر رکھ لے۔ ان روزوں کے رکھنے کی خاطر اسے نہ مکہ مکرمہ ٹھہرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی وطن
|