’’محرم آنکھوں کے دکھنے پر اور اس کے بغیر بھی ، خوشبو سے خالی جو سرمہ چاہے، استعمال کرے۔‘‘
تینوں روایات کے حوالے سے چھ باتیں:
۱: پہلی حدیث پر امام ترمذی نے درجِ ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
[بَابُ مَا جَائَ أَنَّ الْمُحْرِمَ یَشْتَکِيْ عَیْنَہُ فَیُضَمِّدُہَا بِالصَّبِرِ] [1]
[محرم کے اپنی آنکھ دکھنے پر اسے ایلوے کے ساتھ لیپ دینے کے متعلق جو وارد ہوا ہے، اس کے بارے میں باب]
امام نووی نے اس حدیث پر درج ذیل عنوان قلم بند کیا ہے:
[بَابُ جَوَازِ مُدَاوَۃِ الْمُحْرِمِ عَیْنَیْہِ] [2]
[محرم کے اپنی آنکھوں کے علاج کے جواز کے متعلق باب]
علامہ قرطبی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’ وَلَا خَلَافَ فِيْ جَوَازِ مِثْلِ ہٰذَا مِمَّا لَیْسَ فِیْہِ طِیْبٌ وَلَا زِیْنَۃٌ۔‘‘ [3]
’’خوشبو اور زینت سے خالی ایسے علاج کے کرنے میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
امام نووی اس کی شرح میں تحریر کرتے ہیں:
’’ وَاتَّفَقَ الْعُلَمَائُ عَلیٰ جَوَازِ تَضْمِیْدِ الْعَیْنِ وَغَیْرِہَا بِالصَّبِرِ وَنَحْوِہِ مِمَّا لَیْسَ بِطِیْبٍ ، وَلَا فِدْیَۃَ فِيْ ذٰلِکَ۔‘‘ [4]
|